سعودی عرب نے یمن میں ’متحدہ عرب امارات سے آنے والے‘ ہتھیاروں کی شپمنٹ کو بنایا نشانہ
ریاض،30دسمبر(ہ س)۔سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ سعودی سربراہی میں قائم اتحاد نے یمن میں ایک فضائی حملے میں ایسے ہتھیاروں اور کامبیٹ گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے جو کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے جہازوں سے اتاری جا رہی تھیں۔اس بیان میں
سعودی عرب نے یمن میں ’متحدہ عرب امارات سے آنے والے‘ ہتھیاروں کی شپمنٹ کو بنایا نشانہ


ریاض،30دسمبر(ہ س)۔سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ سعودی سربراہی میں قائم اتحاد نے یمن میں ایک فضائی حملے میں ایسے ہتھیاروں اور کامبیٹ گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے جو کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے جہازوں سے اتاری جا رہی تھیں۔اس بیان میں سعودی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا کہ یمن میں موجود بندرگاہ میلا کو بیرونی فوجی امداد حاصل ہے جس کے خلاف محدود فضائی کارروائی کی گئی ہے۔کچھ روز قبل سعودی اتحاد نے یمن کے جنوب میں واقع علیحدگی پسند گروہ کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ملک کے مشرقی صوبے حضرموت کی طرف پیش قدمی روک دے۔رواں ماہ کے آغاز میں یمن کے جنوب میں موجود علیحدگی پسندوں کی کارروائی کے باعث متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) اور سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومتی فوجی دستے آمنے سامنے آئے تھے۔

خیال رہے کہ یمن 2014 سے خانہ جنگی سے متاثرہ ہے۔ یمن کے مقامی ذرائع ابلاغ پر دسمبر کے اوائل سے یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ جنوبی یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔سعودی سربراہی میں قائم اتحاد کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں واقع فجیرہ بندرگاہ سے آنے والے دو جہاز سنیچر اور اتوار کو مکلا بندرگاہ میں بغیر اجازت داخل ہوئے، انھوں نے اپنے ٹریکنگ سسٹم بند کر دیے اور بڑی تعداد میں ہتھیار اور جنگی گاڑیاں اتاریں ’تاکہ ایس ٹی سی کی حمایت کی جا سکے۔‘سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی اتحاد کا کہنا ہے کہ مکلا بندرگاہ پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔تاحال متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا ہے کہ یمن کی صدارتی قیادت کونسل کے سربراہ رشاد العلیمی کی جانب سے حضرموت اور المہرا میں شہریوں کے تحفظ کی درخواست پر سعودی اتحاد نے منگل کی صبح ایک محدود فضائی کارروائی کی جس میں اتارے گئے ہتھیاروں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

خیال رہے کہ علیحدگی پسند گروہ ایس ٹی سی ابتدا میں یمن میں حوثیوں کے خلاف قائم کردہ سعودی اتحاد کا حصہ تھا۔ تاہم بعد میں ایس ٹی سی نے جنوب میں خودمختاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔2022 سے ایس ٹی سی اور سعودی حمایت یافتہ اتحاد کے درمیان حوثیوں کے کنٹرول سے باہر جنوبی علاقوں میں طاقت کی تقسیم رہی ہے۔ایس ٹی سی یمن کے جنوب کے بڑے حصے پر قابض ہے جن میں سٹریٹیجک طور پر اہم حضرموت صوبہ بھی شامل ہے۔ حضرموت سعودی عرب کی سرحد پر واقع ہے اور اس کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں۔حوثی ملک کے شمالی حصے پر قابض ہیں بشمول دارالحکومت صنعا جہاں سے انھوں نے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو 2014 میں نکال دیا تھا اور شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔سعودی اتحاد نے مزید کہا کہ ’ہم کسی بھی ملک کی جانب سے کسی یمنی گروہ کو فوجی مدد فراہم کرنے سے روکنا جاری رکھیں گے۔‘اس کشیدگی کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ ’ہم تحمل اور مسلسل سفارت کاری کی اپیل کرتے ہیں تاکہ ایک پائیدار حل تک پہنچا جا سکے۔‘جبکہ سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے ایکس پر پوسٹ کیے گئے پیغام میں کہا ہے کہ ایس ٹی سی کے فوجیوں کو چاہیے کہ وہ دو علاقائی صوبوں کو حکومت کے حوالے ’پرامن طریقے‘ سے کر دیں۔لیکن ایس ٹی سی نے جمعے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنے خلاف ان کارروائیوں کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande