
تہران،30دسمبر(ہ س)۔ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اور ان کے اماراتی ہم منصب شیخ عبداللہ بن زاید النہیان کے درمیان یمن کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔29 دسمبر کو ٹیلیگرام پر ایرانی وزارت خارجہ کے چینل نے بتایا کہ دونوں رہنماوں کے درمیان فون پر بات چیت ہوئی جس دوران عراقچی نے ’تمام علاقائی ممالک پر زور دیا کہ وہ یمن میں اتحاد اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھیں۔‘انھوں نے کہا کہ ایران یمن میں بحران کے حل کے لیے قومی اتحاد پر مبنی بات چیت کو اہم سمجھتا ہے۔اس بیان کے مطابق اماراتی وزیر نے یمن میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ابوظہبی کی کوششوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے ملک اور وسیع تر خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔پیر کو عراقچی نے عمان کے وزیر خارجہ سے بھی فون پر بات چیت کی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق اس موقع پر ایرانی وزیر خارجہ نے جنوبی یمن کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک کی علاقائی سالمیت اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے علاقائی تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔گذشتہ دو دنوں میں عراقچی نے یمن کے معاملے پر اپنے قطری، اماراتی اور سعودی ہم منصبوں کے ساتھ اسی نوعیت کی بات چیت کی ہے۔تہران کی سفارتی کوششیں اس وقت سامنے آئی ہیں جب متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) نے حالیہ کارروائیاں کی ہیں۔یہ علیحدگی پسند گروہ ماضی میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے والے علاقائی اتحاد کا حصہ تھا لیکن اس نے بڑھتی ہوئی خودمختاری کی بدولت یمن کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا ہے۔ان کارروائیوں کو وسیع پیمانے پر ریاض اور ابوظہبی کے درمیان مفادات کے اختلاف کی علامت سمجھا جا رہا ہے، جو شمال میں حوثیوں کے خلاف ایک ہی اتحاد کا حصہ تھے۔عراقچی اور البوسعیدی کے درمیان کال ایک ایسے وقت میں ہوئی جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو واشنگٹن کے دورے پر تھے۔ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ایران نے بیلسٹک میزائل یا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کیا تو امریکہ ایک بڑا حملہ کر سکتا ہے۔عمان تہران اور مغرب کے درمیان ایک اہم ثالث ہے۔ اس نے اپریل اور مئی میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی میزبانی کی تھی۔ مذاکرات کا چھٹا دور 15 جون کو ہونا تھا جسے اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد منسوخ کیا گیا۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan