
تہران،30دسمبر(ہ س)۔ایران میں سکیورٹی اداروں کے قریب سمجھی جانے والی خبر رساں ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ احتجاج کی لہر سیاسی رخ اختیار کر سکتی ہے۔ ان ایجنسیوں نے بعض مقامات سے احتجاجی مظاہروں کی رپورٹیں بھی شائع کی ہیں۔تسنیم نیوز ایجنسی، جو پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ ہے، نے لالہ زار اور علاالدین و چارسو جیسے بازاروں میں دکانداروں اور تاجروں کے احتجاج کی تصدیق کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ کرنسی بحران اور عوامی قوتِ خرید میں کمی نے دکانداروں کو ’معمول کی تجارت‘ سے محروم کر دیا ہے۔تسنیم نے لکھا کہ ’کچھ دکاندار جو اپنی دکانوں کے بھاری کرایے ادا کرتے ہیں، فروخت میں شدید کمی کے باعث اب یہ کرایہ بھی ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔‘یہ رپورٹ ’غیرملکی سکیورٹی ادارے اور مخالف ایرانی میڈیا حقِ احتجاج کے انتظار میں‘ کے عنوان سے شائع کی گئی اور مظاہرین سے کہا گیا کہ ’ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں تاکہ ان کے احتجاج کو ملک دشمن عناصر ہائی جیک کر کے اسے سکیورٹی اور انتظامی مسئلہ نہ بنا سکیں۔‘فارس نیوز ایجنسی، جو پاسداران کے قریب سمجھی جاتی ہے، نے بھی لکھا کہ یہ احتجاج ’فساد کے نئے مراکز کے لیے بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔‘فارس نے ’عینی شاہدین‘ کے حوالے سے کہا کہ ’تقریباً 200 افراد کے اجتماع میں پانچ سے 10 افراد کے چھوٹے گروہ ایسے نعرے لگا رہے تھے جو معاشی مطالبات سے کچھ بڑھ کر تھے۔‘تاہم سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج صرف تہران تک محدود نہیں اور مظاہرین کی تعداد ان رپورٹس سے کہیں زیادہ ہے جو حکومت کے قریب خبر ایجنسیوں نے دی ہیں۔فارس نے وزارتِ اطلاعات کے ایک ’باخبر ذریعے‘ کے حوالے سے لکھا کہ ’چھوٹے گروہوں کی موجودگی اور ان کا احتجاج کو ایسی سمت میں لے جانا بالکل دشمن کے اس منصوبے کے مطابق ہے جس کا مقصد معاشی تنقید کو سیاسی عدم استحکام میں بدلنا ہے۔‘ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan