
واشنگٹن،24دسمبر(ہ س)۔اقوام متحدہ میں امریکی مشن کی مشیر اور وزارتِ خارجہ کی سابق ترجمان مورگن اورٹاگس نے دونوں ملکوں کے سفارت کاروں کے درمیان ہونے والے ایک نادر علانیہ تبادلے میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکہ اب بھی ایران کے ساتھ با ضابطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن صرف اسی صورت میں جب تہران براہِ راست اور با مقصد مذاکرات کے لیے آمادہ ہو۔گذشتہ روز منگل کی شام سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ عوامی سطح پر (میڈیا کے سامنے) مذاکرات نہیں کرے گا۔
اورٹاگس نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے صدارتی ادوار کے دوران تہران کی طرف سفارت کاری کا ہاتھ بڑھایا ہے۔دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایروانی نے زور دے کر کہا کہ ان کا ملک اصولوں پر مبنی سفارت کاری اور حقیقی مذاکرات کے لیے مکمل طور پر پ±ر عزم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ فرانس، برطانیہ اور امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کریں اور اعتماد کی بحالی کے لیے ٹھوس اور قابلِ بھروسہ اقدامات اٹھائیں۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی سفیر نے واضح کیا کہ تہران اب بھی 2015 کے جوہری معاہدے کے بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔ اس معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا تھا اور جس کے تحت ایران نے پابندیوں کے خاتمے کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب جوہری معاہدے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ اور ایران کے درمیان اختلافات کی خلیج بہت گہری اور وسیع ہوتی جا رہی ہے۔رواں سال جون میں اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد واشنگٹن اور تہران کے درمیان مذاکرات کا چھٹا دور طے تھا، لیکن وہ مذاکرات منسوخ کر دیے گئے تھے۔ اس جنگ کے دوران امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بم باری میں اسرائیل کا ساتھ دیا تھا۔
واضح رہے کہ ستمبر میں ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے براہِ راست جوہری مذاکرات کو مسترد کر دیا تھا۔یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جو ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین بشمول جرمنی کے درمیان طے پایا تھا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan