غزہ میں قحط کا خطرہ ختم مگر غذائی قلت بدستور موجود ہے: اقوام متحدہ
نیویارک،20دسمبر(ہ س)۔بین الاقوامی سطح پر بھوک اور قحط کو مانیٹر کرنے والے ادارے ''آئی پی سی'' کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی و تجارتی بنیادوں پر خوراک کی فراہمی بہتر ہوئی ہے اور اس بہتری کی وجہ 10 اکتوبر سے شروع ہونے والی پہلے مرحلے کی جنگ بندی بنی
غزہ میں قحط کا خطرہ ختم مگر غذائی قلت بدستور موجود ہے: اقوام متحدہ


نیویارک،20دسمبر(ہ س)۔بین الاقوامی سطح پر بھوک اور قحط کو مانیٹر کرنے والے ادارے 'آئی پی سی' کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی و تجارتی بنیادوں پر خوراک کی فراہمی بہتر ہوئی ہے اور اس بہتری کی وجہ 10 اکتوبر سے شروع ہونے والی پہلے مرحلے کی جنگ بندی بنی ہے۔ جو اب تیسرے ماہ میں داخل ہے۔ 'آئی پی سی' کی طرف سے یہ بات جمعہ کے روز بتائی گئی ہے۔اس ادارے کے مطابق غزہ میں قحط اور بھوک کے حوالے سے تازہ جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حالیہ چند مہینوں میں غزہ فوڈ سیکیورٹی کے ایک مربوط مرحلے سے متعارف ہو گیا ہے۔ جہاں اس سے پہلے 5 لاکھ 14 ہزار لوگ قحط کی زد میں تھے۔ یہ آبادی غزہ کے رہنے والوں کی تقریبا ایک چوتھائی پر مشتمل تھی۔تاہم ’گلوبل ہنگر مانیٹر‘ کے مطابق خوراک کے حوالے سے اب بھی صورتحال ایسی اچھی نہیں ہے کہ جسے سب اچھا کہا جا سکے۔

’آئی پی سی‘ نامی ادارے کے مطابق ایک بدترین منظر کے مطالعہ کے بعد جس میں بار بار تجدید ہوتی دشمنی کا ماحول بصورت جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے شامل ہے، اسی طرح انسانی بنیادوں پر اور تجارتی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی خوراک کو بار بار روکا جاتا ہے۔اگر اس صورتحال میں دیکھا جائے تو غزہ کی پٹی اپریل 2026 میں ایک بار پھر قحط کی زد میں آسکتی ہے۔ کیونکہ ابھی بھی انسانی بحران جاری ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تمام خوراک کی فراہمی و رسائی کے امکانات اب تک اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔اسرائیلی فوج کے سول ادارے 'کوگیٹ' کو خوراک کی ترسیل کی اجازت دینے اور روکنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے ماہ اگست میں قحط کی جو صورتحال تھی البتہ اس میں بہتری آگئی ہے۔’کوگیٹ‘ کا کہنا ہے کہ اب ہر روز 600 سے 800 ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ 10 اکتوبر کے بعد بہتری کی طرف چلا ہے۔ جس کے نتیجے میں خوراک کی 70 فیصد ضرورت پوری ہو رہی ہے۔حماس’کوگیٹ‘ اور اسرائیلی فوج کے ان اعداد و شمار کو درست قرار نہیں دیتا اور اس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج 600 ٹرک یومیہ سے کہیں کم تعداد کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ جبکہ غزہ کے لوگوں کو اس سے کہیں زیادہ خوراک کی ابھی بھی ضرورت ہے۔ جبکہ اسرائیل جس چیز کو چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ اسرائیل اس امر کی تردید کرتا ہے۔’آئی پی سی‘ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا اب قحط کی صورتحال نہیں مگر خوراک کے حوالے سے بحران ابھی جاری ہے۔

اس رپورٹ میں پچھلے 15 برسوں میں آنے والے 5 قحطوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ جن میں صومالیہ کا 2011 کا قحط جنوبی سوڈان میں 2017 اور 2020 کا قحط ، سوڈان میں 2024 کا قحط اور سب سے تازہ ترین قحط غزہ میں حالیہ مہینوں یعنی اگست میں سامنے آیا۔علاقے میں قحط کی درجہ بندی کے لیے جو پیمانہ طے کیا جاتا ہے اس میں کم از کم 20 فیصد لوگ خوراک کی قلت کا انتہائی طور پر سامنا کر رہے ہوں۔ جبکہ 3 بچوں میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہو کر مختلف عوارض کا نشانہ بن رہے ہیں اور 1000 لوگوں میں سے 2 یومیہ بھوک اور خوراک کی قلت کے باعث لقمہ اجل بن رہے ہوں تو اسے قحط کا نام دیا جاتا ہے۔’آئی پی سی‘ نے جمعہ کے روز کہا اس وقت کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں یہ صورتحال موجود ہو۔ اگرچہ ایسی صورتحال ضرور ہے جسے خوراک فراہمی کے حوالے سے کمزور اور پریشان کن کہا جا سکتا ہے۔’آئی پی سی‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ادارہ اس چیز کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ گھریلو ضروریات کی کمی اب بھی موجود ہے۔ جس کو تباہ کن قرار دیا جا سکتا ہے۔ جسے خوراک کی انتہائی کمی کی حالت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ بھوک اور خطرناک حد تک بڑھنے والے خدشات غذائی قلت کے سبب ہونے والی اموات سب اس کا حصہ ہوتی ہیں۔’آئی پی سی‘ نے جمعہ کے روز کہا ہے اس وقت بھی غزہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگ خوراک کے اعتبار سے تباہ کن صورتحال سے گزر رہے ہیں لیکن اس میں اپریل 2026 میں مزید کمی ہو کر تقریبا 1900 کی تعداد رہ جائے گی۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande