
’عالمی یوم حقوق اقلیت‘ کے موقع پر دہلی مسلم مجلس مشاورت کے سیمینار سے مختلف مذاہب کے رہنماوں کا خطابانصاف کے لیے متحد ہوکرلڑنے کے عزم کا اعادہ، ہندو تو کے نشانے پر مسلمان لیکن سب سے زیادہ دلتوں کا نقصان،اقلیتوں کا ڈر دکھا کر دلتوں کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں لیکن دلت لیڈران ان کی گود میں کھیل رہے ہیں: فیروز احمد ایڈوکیٹحقوق کا تحفظ تو جمہوریت کی بقا میں ہے: پی آئی جوش، جس کمیونٹی نے چھ سو ستر سال ملک پر حکومت کی، وہ اقلیت میں کیوں آگئی؟ : پروفیسر رتن لال، ملک کی آزادی کے لیے قربانیاں ہم نے دیں، ہم ہی پھر قربانیاں دیں گے: سردار دیا سنگھ نئی دہلی 19دسمبر(ہ س)۔ حقوق کے تحفظ کے لیے ملک جمہوریت کوواپس لانا ہوگا۔ جب تک قانون کی حکمرنی نہیں ہے اور عدالتیں ٹھیک سے کام نہیں کرتیں، اقلیتیں کیا کسی کے حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جمعرات کو یہاں عالمی یوم حقوق اقلیت کے موقع پر دہلی مسلم مجلس مشاورت کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے حقوق انسانی کے سرکردہ کارکن، مشہور عیسائی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل پی آئی جوش نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج لاکھوں لوگ کنٹریکٹ پر کام کررہے ہیں۔ ان غریبوں کی آئندہ نسل کا کیا بنے گا، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ہمیں اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی اور آج کی سب سے بڑی ترجیح جمہوریت کی واپسی ہے۔ انہوں نے اس پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری کھاتے سے ایک ڈرائیور کو پندرہ ہزار جاتا تھالیکن اس میں سے صرف 3 ہزار روپے اسے ملتا تھا۔جبکہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ اقلیتوں کا ہوا کھڑا کرکے سب سے زیادہ دلتوں کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ دلت لیڈران ان کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کی نمائندگی اور ان کے ووٹ کی طاقت کو کمزور کرنا ہندوستان کے ماتھے کا داغ بن گیا ہے جبکہ دنیا میں ان ہی ملکوں کو زیادہ جمہوری مانا جاتا ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق زیادہ محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ملک کا مفاد کیا ہے لیکن اسٹیٹ اسپانسرڈ وائلنس (ریاستی تشدد) ملک و قوم کے لیے سب سے زیادہ نقصان کا باعث ہے۔ ایک شخص ہندو راشٹر کے نعرے کے ساتھ پد یاترا چلا رہا ہے لیکن سرکاریں اور سرکاری ایجنسیاںکیا کررہی ہیں۔ انہوں نے حکومت کے دوہرے رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسمرتی ایرانی دو دو پین کارڈ لے کر گھوم رہی ہیں،بہار کا ڈپٹی چیف منسٹر فرضی برتھ سرٹیفکیٹ اور فرضی ڈگریاں استعمال کر کےقانون کو چکمہ دیتا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی، سزائیں صرف اعظم خاں اور عبداللہ اعظم کو سنائی جاتی ہیں۔
اس سے قبل دہلی یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے استاد ڈاکٹررتن لال نے سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ہندوستان میں اقلیتوں کے مسائل پرسنجیدہ سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ چھ سو ستر سال جس کمیونٹی نے حکومت کی، وہ اقلیت میں کیوں آگئی؟ انہوں نے کہا کہ مسلم حکمرانوں نے سماجی اسٹرکچر کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے طاقتور طبقوں سے سمجھوتہ کیا۔انہوں نے کہا کہ بادشاہوں نے یہاں بڑے بڑے قلعے،عالی شان عمارتیں اورمحلات بنوائے ان کی اولادکہیں نظر نہیں آتیں لیکن جو ان کے درباری اور منصب دار تھے، محلات، قلعوں، ڈیوڑھیوں اور پانچ ستارہ ہوٹلوں کے مالک ہیں۔انہوں نے دلتوں کی سادہ لوحی ذکر کرتے ہوئے مسلم قیادتوں پر زور دیا کہ وہ دلت مسلم اتحاد کے لیے کام کریں۔ انہوں نے دلتوں پرنظام حیدر آباد کے احسانات کی یاد دلائی اور بابا صاحب بھیم راو امبیڈکر کی مدد میں جس فراخ دلی سے نظام حیدرآبادنے کام لیا، اسی کشادہ قلبی سے ملک کے مسلمانوں کو آج بھی کام لینے کی ترغیب دی۔ انہوں نے کہا کہ جس اشرافیہ نے ملک کی 85 فیصد آبادی کو پہلے غلام بنا رکھا تھا، اسی نے آج بھی ان کو محکوم بنا رکھا ہے اور ان کے تسلط سے سب کو مل کر آزادی حاصل کرنا ہوگا۔ آل انڈیا پیس مشن کے صدرسردار دیا سنگھ نے کہا کہ مشہور مجاہد آزادی سردار حکم سنگھ کہتے تھے کہ جنگ آزادی میں گاندھی جی کے ساتھ سکھ اور مسلم ہی کھڑے ہوئے، آزادی کے لیے قربانیاں انہوں نے ہی دیں اور جب تک سکھ اور مسلم اس ملک میں ہیں، اس دیش کی آزادی اور سیکولرازم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ضرورت ہے ہم سب کے ایک ہونے کی۔ انھوں نے کہا کہ سنگھرش مل کر کرنا پڑےگا۔یہ ملک ہمارا ہے اور اس کو ہم ہی بچائیں گے۔ سیمینار کا آغاز مولانا اظہر مدنی کی تلاوت کلام پاک سے اور اختتام دہلی مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ادریس قریشی کے کلمات تشکر پر ہوا۔ انہوں نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ حکومت کو اپنی آنکھ کان کھولنا اور سننا دیکھنا چاہیے کہ یہ کہتے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے صدر اجلاس فیروز احمد ایڈوکیٹ، یامین قریشی، مشتاق احمد،عبد الرشیداور سید منصور آغا کے ہاتھوں مہمانوں کو مومنٹو اور شال پیش کیا۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais