تاریخ کا منفی اور یکطرفہ بیانیہ ملک کی تکثیری تہذیب کے لیے سنگین خطرہ ہے : سہیل ہاشمی
نئی دہلی،17دسمبر(ہ س)۔ معروف فلم ساز ، تاریخ داں اور مشترکہ ثقافتی ورثے کے علم بردار سہیل ہاشمی نے انڈین ہسٹری فورم کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ویبینار میں کہا کہ ہندوستان میں لباس، خوراک اور طرزِ تعمیر کی روایات صدیوں پر محیط باہمی میل جول، تبادلے او
تاریخ کا منفی اور یکطرفہ بیانیہ ملک کی تکثیری تہذیب کے لیے سنگین خطرہ ہے : سہیل ہاشمی


نئی دہلی،17دسمبر(ہ س)۔ معروف فلم ساز ، تاریخ داں اور مشترکہ ثقافتی ورثے کے علم بردار سہیل ہاشمی نے انڈین ہسٹری فورم کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ویبینار میں کہا کہ ہندوستان میں لباس، خوراک اور طرزِ تعمیر کی روایات صدیوں پر محیط باہمی میل جول، تبادلے اور اخوت کی عکاس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کا امیتازی سلوک ہندوستانی سماج کے لیے ناقابل قبول ہے۔’ دی اسٹوری آف آور اٹائر، فوڈ اینڈ آرکیٹیکچر‘ کے عنوان سے منعقدہ ویبینار میں 12ویں سے 18ویں صدی کے درمیان ہندوستانی سماج کے اس ارتقا کا جائزہ لیا گیا جو مختلف خطّوں اور ثقافتوں سے مسلسل رابطے کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ سہیل ہاشمی نے کہا کہ موجودہ مباحث میں اکثر ’بھارتی‘ ہونے کی نہایت محدود معنوں میں تعریفیں کی جاتی ہیں، جبکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ ایک تہہ دار اور مشترکہ عمل رہا ہے جسے جغرافیہ، آب و ہوا، ٹیکنالوجی اور لوگوں کی نقل و حرکت نے تشکیل دیا ہے۔سہیل ہاشمی نے قدیم ہندوستانی ثقافت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان دنیا میں کپاس کی کاشت کرنے والے ابتدائی خطّوں میں شامل تھا اور یہاں دھوتی، ساڑی اور لنگی جیسے بغیر سِلے ہوئے کپڑے پہنے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک سے رابطے کے ذریعے قینچی کے آنے کے بعد ہی سلے ہوئے کپڑے ہندوستان میں عام ہوئے۔ آج جن ملبوسات کو بھارتی سمجھا جاتا ہےجیسے کرتا، پاجامہ، قمیض، بلاو¿ز اور پیٹی کوٹ وغیرہ ، جبکہ ان کپڑوں کا تعلق بیرونی ممالک سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیدائش، تعلیم، شادی اور وفات سے متعلق رسومات میں آج بھی بغیر سلے کپڑے استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح کے کپڑے طہارت کے قدیم تصورات کی عکاسی کرتے ہیں۔روز مرہ کی خوراک پر گفتگو کرتے ہوئے سہیل ہاشمی نے کہا کہ بھارتی پکوانوں میں مختلف ممالک کی خورد و نوش کی روایت صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔ کھانے کا یہ کلچر طویل عالمی تبادلوں کی تاریخ کے ذریعے تشکیل پایا ہے۔ اگرچہ کئی غذائیں مقامی ہیں مگر بہت سے پھل، سبزیاں اور کھانے کے طریقے تجارت اور سلطنتوں کے ذریعے وسطی ایشیا اور یورپ سے آئے ہیں۔ انہوں نے آلو اور مرچ جیسی چیزوں کی مثالیں دیں اور پرتگالیوں کے گرافٹنگ کے طریقوں کا ذکر کیا جنہیں بعد میں مغل حکمرانوں نے فروغ دیا۔ انہوں نے ہندوستان میں پیدا ہونے والے گنّے کے عالمی سفر کا ذکر کیا۔گنے کی کھیتی میں مزدور طبقے کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ طرز تعمیر کے حوالے سے سہیل ہاشمی نے نوآبادیاتی دور کے ’ ہندو‘ یا ’ اسلامی ‘ طرزِ تعمیر جیسی اصطاحوں پر تنقید کی۔ ان کے مطابق اس طرح کی درجہ بندیاں آب و ہوا، تاریخی شواہد اور ٹیکنالوجی جیسے حقائق کو نظرانداز کرتی ہیں۔ ایشیا اور یورپ کی مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گنبد اور محراب جیسی تعمیری خصوصیات کئی مذاہب میں بہت پہلے سے موجود تھیں اور مختلف خطّوں میں مختلف صورتیں اختیار کرتی رہیں۔انہوں نے کہا کہ ہجرت، سفر اور آپسی روابط انسانی تاریخ کے بنیادی عناصر ہیں، اس لیے ’ بھارتی‘ اور ’ غیر ملکی‘ کے درمیان تفریق کا نظریہ تاریخی طور پر سخت گمراہ کن ہے۔ویبینار کی نظامت انڈین ہسٹری فورم کی ریسرچ اسسٹنٹ اور کوآرڈینیٹر حمیرہ آفرین نے کی۔ حمیرہ آفرین نے شرکائ کا خیرمقدم کیا اور مقرر کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے بھارت کے ماضی کے بارے میں باخبر اور جامع مکالمے کے لیے آئی ایچ ایف کے عزم کا اعادہ کیا۔ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande