واجپائی نے کہا تھا - مقبولِ عام وزیر اعظم کا صدر جمہوریہ بننا پارلیمانی جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے
نئی دہلی، 17 دسمبر (ہ س)۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے چوٹی کے رہنماسابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا ماننا تھا کہ مقبولِ عام وزیر اعظم کا صدر جمہوریہ بننا ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت کے لیے اچھی علامت نہیں ہوگی اور یہ ایک انتہائی غلط روایت ہ
BOOK-VAJPAYEE-PRESIDENT


نئی دہلی، 17 دسمبر (ہ س)۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے چوٹی کے رہنماسابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا ماننا تھا کہ مقبولِ عام وزیر اعظم کا صدر جمہوریہ بننا ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت کے لیے اچھی علامت نہیں ہوگی اور یہ ایک انتہائی غلط روایت ہوگی۔

ایک ایسے وقت میں جب 2027 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے صدر جمہوریہ بننے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، اٹل بہاری واجپائی کے اس نظریے کو سینئر صحافی اشوک ٹنڈن کی لکھی گئی ایک کتاب میں اجاگر کیا گیا ہے، جو ان کے وزیر اعظم کے دور میں ان کے میڈیا ایڈوائزر تھے۔ اس کتاب کا بدھ کو یہاں اجرا کیا گیا۔

دراصل ، یہ بات2002 کی ہے، جب واجپائی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) حکومت نئے صدارتی عہدے کے لیے امیدوار پر غور کر رہی تھی۔ اس وقت اس کتاب کے مصنف واجپائی کے وزیر اعظم کے دفتر میں تعینات تھے۔ کتاب میں اشوک ٹنڈن لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر پی سی الیگزینڈر مہاراشٹر کے گورنر تھے اور وزیر اعظم کے دفتر میں ایک بااثر ساتھی ڈاکٹر الیگزینڈر کے ساتھ ذاتی رابطے میں تھے اور انہیں ایسے اشارے دے رہے تھے جیسے وہ واجپائی کے ایلچیہوں۔ دوسری طرف وہی حضرت واجپائی کو مسلسل اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ڈاکٹر الیگزینڈر، جو ایک عیسائی ہیں، کو صدارتی امیدوار بننا چاہیے۔ ایسا کرنے سے کانگریس صدر سونیا گاندھی پریشان ہوں گی اور مستقبل میں ان کے وزیر اعظم بننے کے امکانات نہیں ہوں گے ،کیونکہ ملک ایک عیسائی صدر جمہوریہ کے رہتے ایک اور عیسائی وزیر اعظم نہیں بن سکے گا۔

دوسری طرف اس وقت کے نائب صدرجمہوریہ کرشن کانت این ڈی اے کے کنوینر اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندرابابو نائیڈو اور دیگر لیڈروں پر اپنی امیدواری کے لیے منحصر تھے۔ اسی دوران بی جے پی کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ کیوں نہ اپنی ہی پارٹی کے اندر سے ہی کسی سینئر لیڈر کو اس عہدے کے لیے منتخب کیا جائے۔ واجپائی سب کی بات سنتے، لیکن اپنے خیالات کوظاہر نہیں کرتے۔ پوری اپوزیشنسبکدوش ہونے والے صدر جمہوریہ کے آر نارائنن کو این ڈی اے امیدوار کے خلاف میدان میں اتارنے کے لیے سرگرم عمل تھی، جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔ نارائنن کی شرط یہ تھی کہ وہ صرف اسی صورت میں الیکشن لڑیں گے جب وہ بلا مقابلہ منتخب ہو سکیں۔

کتاب کے مصنف کے مطابق، واجپائی نے اپنی پارٹی کے اندر سے آ رہی ان تجاویز کو صاف طور پر مسترد کر دیا کہ وہ خود راشٹرپتی بھون چلے جائیں اور وزیرا عظم کا عہدہ اپنے نمبر دو لیڈر ایل کےاڈوانی کو سونپ دیں۔ واجپائی اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اکثریت کے زور پر ایک مقبول عام وزیر اعظم کا صدر جمہوریہ بننا ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہو گا اور یہ ایک بہت غلط روایت کی شروعات ہوگی اور وہ اس طرح کے قدم کی حمایت کرنے والے آخری شخص ہوں گے۔

واجپائی نے اپوزیشن کانگریس کے رہنماؤں کومدعو کیا تاکہ صدارتی امیدوار پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ اشوک ٹنڈن لکھتے ہیں،’’مجھے یاد ہے کہ سونیا گاندھی، پرنب مکھرجی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ ان سے ملنےآئے تھے۔ واجپائی نے پہلی بار باضابطہ طور پر انکشاف کیا کہ این ڈی اے نے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھلمحے کے لئے خاموشی چھا گئی۔‘‘پھر سونیا گاندھی نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے انتخاب سے حیران ہیں۔ ہمارے پاس ان کی حمایت کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے، لیکن ہم آپ کی تجویز پر بات کریں گے اور فیصلہ کریں گے۔‘‘ باقی تاریخ بن گئی۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے اپنی پارٹی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ڈاکٹر کلام میری پسند ہیں‘‘۔

کتاب میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر الیگزینڈر نے اپنی سوانح عمری میں کئی افراد کو 2002 میں انہیں صدر جمہوریہ نہ بننے دینے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا۔کانگریس حکومت میں سابق مرکزی وزیر کنور نٹور سنگھ کے مطابق ڈاکٹر الیگزینڈر نے انہیں اور واجپائی کے پرنسپل سکریٹری اور قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا کو بھی اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ ڈاکٹر کلام کے نام نے سب کو حیران کر دیا، کیوں کہ ان کا نام تو صدارتی دوڑ میں کہیں تھا ہی نہیں ۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / محمد شہزاد


 rajesh pande