کانگریس جیت جائے تو سکندر اور ہار جائے تو امپائر خراب-یہ طریقہ ٹھیک نہیں: نڈا
نئی دہلی، 16 دسمبر (ہ س)۔ راجیہ سبھا میں انتخابی اصلاحات کے معاملے پر جواب دیتے ہوئے ایوان کے لیڈر جے پی نڈا نے کہاکہ’’ کانگریس جبجیت جائےتو سکندر اور ہار جائے تو امپائر خراب- یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ کانگریس حکومت کے دوران بیلٹباکس کھلے عام لوٹے جات
RS-SIR-JP NADDA


نئی دہلی، 16 دسمبر (ہ س)۔ راجیہ سبھا میں انتخابی اصلاحات کے معاملے پر جواب دیتے ہوئے ایوان کے لیڈر جے پی نڈا نے کہاکہ’’ کانگریس جبجیت جائےتو سکندر اور ہار جائے تو امپائر خراب- یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ کانگریس حکومت کے دوران بیلٹباکس کھلے عام لوٹے جاتے اور غائب ہو جاتے تھے۔انتخابی کمیشن کی رپورٹ ہے کہ کانگریس پارٹی کے ذریعہ انہیں براہ راست کسی بھی طرح کے انتخابی اصلاحات کا مشورہ نہیں دیاگیا۔‘ انہوں نے سوال کیا کہ کانگریس پھر سے پرانے لالٹین کے دور میں کیوں جانا چاہتی ہے۔

منگل کو انتخابی اصلاحات پر بحث کا اختتام کرتے ہوئے جے پی نڈا نے کہا کہ کئی دہائیوں سے الیکشن کمیشن کے کام کو دیکھنے کی ذمہ داری ایک پارٹی کی تھی اور وہ پارٹی ایک خاندان کی پارٹی ہے۔

اس دور میں کسی نے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سوال نہیں کھڑے کئے۔ جب ہم اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو ایس آئی آر کے حوالے سے ملک بھر میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش ہوئی کہ دھوکہ دہی ہور ہی ہے۔ کانگریس پارٹی اس مسئلہ پر ریلی کر رہی ہے۔ جمہوری نظام کی مضبوطی پرکانگریس کے پرانے لیڈروں اور آج کے لیڈروں کی بات کریں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گنگا - جمنا میں کتنا زیادہ پانی بہہ چکا ہے۔

انہوں نے کہاکہ’’خصوصی جامع نظر ثانی( ایس آئی آر)ملک میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ایس آئی آر کا انعقاد 1952، 1957 اور 1961 میں کیا گیا تھا جب جواہر لال نہرو وزیر اعظم تھے۔اٹل بہاری واجپئی کے علاوہ تمام ایس آئی آر انگریس کی قیادت والی حکومتوں کے تحت ہوئے ہیں۔ بہار کے انتخابی نتائج کانگریس کے لیے تکلیف دہ ہیں، لیکن وہ عوام اور اپنے ہی کارکنوں کو ایس آئی آر کو مورد الزام ٹھہرا کر جھوٹی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے طنزکرتے ہوئے کہا کہ ’کانگریس نے پریس کانفرنس کرکے انتخابی کمیشن پر جو بھی الزامات عائد کئے ، الیکشن کمیشن نے اس کےمدلل جواب دیئے۔

کانگریس پارٹی کے ذریعہ ملک کو گمراہ کرنا قومی مفاد میں نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ کانگریس پارٹی نے ای وی ایم پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگاکہ راجیو گاندھی نے وزیر اعظم رہتے ہوئے ای وی ایم کو ملک میںمتعارف کرایا اور اس میں بہت سی قانونی دفعات عائد کی گئی تھیں۔

جے پی نڈا نے کہا، ’’کانگریس پارٹی تمل ناڈو میں 58 برسوں سے الیکشن نہیں جیت پارہی ہے، دہلی میں 12 سال سے اقتدار میں نہیں ہے اور مغربی بنگال میں 48 برسوں سے اقتدار میں نہیں ہے۔‘‘

بہار، گجرات اور اتر پردیش میں 35 سال سے کانگریس اقتدار میں نہیں ہے۔ وہ جھارکھنڈ میں کبھی اقتدار میں نہیں رہی۔ اڈیشہ میں 25 برسوں سے اور کیرالہ میں 11 برسوں سے اقتدار میں نہیں ہے۔

کانگریس لیڈروں کو سمجھنا ہوگاکہ انہیں الیکشن کمیشن پر نہیں بلکہ اپنے کام کرنے کے انداز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس نے اس سال فروری میںانتخابات میں بے ضابطگی کے بار بار الزامات لگائے اور ہر بار مختلف اعداد و شمار پیش کیے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انتخابی عمل کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایس آئی آر صرف الیکشن جیتنے یا ہارنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کا معاملہ ہے۔

ہمارے لیے ملک مقدم ہونا چاہیے اور دیگر مسائل اس کے بعد آنا چاہیے۔ ہم تمام معاملات پر بات چیت کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ہمارے لیے بعد میں ہے اور ملک پہلے ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / محمد شہزاد


 rajesh pande