
علی گڑھ, 15 دسمبر (ہ س)۔
ہندوستانی مسلمانوں میں ہینڈ لوم اور دستکاری کی قدیم روایت کو بڑھاوا دینے کے لئے حکومتی اقدامات رنگ لار ہے ہیں ان خیالات کا اظہار معروف سماجی کارکن ڈاکٹر افضال احمد نے کیا ۔
وہ آج البلاغ ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام تجارتی میلے کے تناظر میں منعقد ایک مذاکرہ سے خطاب کررہے،انھوں نے کہا کہ حال ہی صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ لکڑی کی نقاشی کے لئے سہارنپور کے محمد دلشاد کو قومی ایوارڈ سے نوازا جانا اس کی واضح مثال ہے۔انھوں نے کہا کہ حال ہی میں پرگتی میدان میں لگے دستگاری میلے میں اس طرح کے سینکڑوں مسلم افراد شریک ہوئے جو اپنی اپنی فنکاری کا مظاہرہ کررہے تھے۔انھوں نے اپنا مشاہدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ پہلی چیز جس نے میری توجہ حاصل کی وہ مسلم کاریگروں کی بڑی تعداد تھی۔ وہ اپنے اسٹال کے پیچھے ایسے کھڑے تھے جیسے بچپن سے اپنے ہنر سے جی رہے ہوں۔ کچھ جوان تھے، کچھ بوڑھے، بہت سے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں سے آئے تھے، لیکن سب نے ایک خاص وقار کا اظہار کیا جو اپنے ہاتھوں سے مکمل طور پر کچھ بنانے سے حاصل ہوتا ہے۔ جس چیز نے ان کی موجودگی کو اور بھی خاص بنا دیا وہ یہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ وہ یہاں کیسے آئے تھے۔
پنڈال پر موجود عہدیداروں کے مطابق جموں و کشمیر ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کی درخواست پر کشمیر کے دستکاری اور ہینڈلوم ڈپارٹمنٹ نے ایک شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے 35 کاریگروں اور بنکروں کی فہرست کو حتمی شکل دی۔ یہ کوئی اندرونی حلقہ انتخاب نہیں تھا، اور نہ ہی یہ علامتی نمائندگی تھی۔ اس عمل نے تمام لوگوں کو یکساں مواقع فراہم کیے۔
ڈاکٹر افضال احمد نے کہا کہ مذکورہ کاریگروں کے لیے جو ان علاقوں سے آتے ہیں جہاں روزی روٹی کے وسائل محدود ہیں اور مارکیٹیں غیر متوقع ہیں ایسے لوگوں کے لئے قومی تجارتی میلے میں کھڑے ہونا صرف ایک پیشہ ورانہ موقع نہیں بلکہ ایک شناخت حاصل کرنے کا موقع ہے۔انھوں نے دیگر ریاستوں سے آئے کاریگروں کی بھی ستائش کی جن میں اتر پردیش، پنجاب، آندھرا پردیش، تلنگانہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، ہماچل پردیش، اور مغربی بنگال کے مسلم دستکار شامل تھے ہر ایک نے اپنے بنائے ہوئے دستکاریوں اور روایتی کاموں سے اپنی علاقائی شناخت پیش کی۔ پیتل کے برتنوں اور چکنکاری سے لے کر بیڑی کے کام، لکڑی کے دستکاری اور دھاتو کی نقاشی کے اسٹالوں نے یہ ظاہر کیا کہ ہندوستان کے ثقافتی تناظر میں مسلم کاریگروں کی زبردست شناخت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ؤ ہم اکثر سنتے ہیں کہ ہماری کمیونٹی کے ارکان پیچھے رہ گئے ہیں، یا ان کی صلاحیتوں کو پہچانا نہیں جاتا۔ تاہم، یہاں، دہلی کے پرہجوم نمائشی میدان میں تصویر مختلف تھی۔ مسلمان کاریگر خاموش یا کنارہ کش نہیں تھے۔ وہ مرکز میں تھے، نظر آتے تھے، اور قابل قدر تھے۔ ان کے کام کو اقلیتی فن کے طور پر نہیں بلکہ ہندوستانی ورثے کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔انھوں نے آخر میں کہا کہ دستکاری صرف ذریعہ معاش نہیں ہے بلکہ فنکارانہ برادری کی شناخت ہے۔
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ