
نئی دہلی،13دسمبر(ہ س)۔ انڈین ہسٹری فورم(آئی ایچ ایف) کے زیر اہتمام ایک فکری اور معلوماتی ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔ویبینار میں عالیہ یونیورسٹی کولکاتا کے اسسٹنٹ پروفیسر اور شعبے کے سربراہ ڈاکٹر اشتیاق حسین نے شرکت کی۔’ہندوستانی مسلمانوں کا حقیقی نمائندہ کون؟ سیاست اور یکساں شناخت کی تشکیل‘ کے عنوان پر منعقد ہونے والےاس ویبینار میں شناخت کی تشکیل، تاریخی بیانئے اور مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کے مختلف پہلووں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر اشتیاق حسین نے اس مفروضے کو چیلنج کیا کہ ہندوستانی مسلمان ایک علاحدہ شناخت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ تصور بڑی حد تک نوآبادیاتی دور کی پیداوار ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمانوں میں بڑی حد تک تنوع پایا جاتا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں میں علاقہ، زبان، طبقہ اور فقہی و اعتقادی اعتبار سے مختلف قسم کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین نے برصغیر میں مسلمانوں کی طویل تاریخ کے تناظر میں ابتدائی عرب تاجروں سے لے کر ترک اور وسطی ایشیائی فتوحات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قبل از جدید دور میں قوموں کی شناختیں مذہبی یکسانیت کے بجائے جغرافیہ اور ثقافتی روابط سے متعین ہوتی تھیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ اگرچہ دہلی سلطنت اور مغلیہ دور کے حکمران مسلمان تھے تاہم انہیں ’اسلامی حکومت‘ کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ تاریخ دانوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ قرون وسطیٰ کا ہندوستان بقائے باہمی، مفاہمت اور مشترکہ ثقافتی ماحول سے عبارت تھا۔خطاب میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کس طرح برطانوی نوآبادیات نے سماج کو مذہبی خانوں تقسیم کر دیا، جس کے نتیجے میں شناخت کی سیاست میں شدت پیدا ہوتی گئی۔ تقسیم ہند کے بعد تعلیم یافتہ مسلم اشرافیہ کی ہجرت سے قیادت جو کا خلا پیدا ہوا، اسے عام طور سے مذہبی شخصیات نے پُر کیا۔ مذہبی طبقے کی توجہ سماجی و معاشی مسائل کے بجائے زیادہ تر ثقافتی معاملات تک محدود رہی۔ڈاکٹر اشتیاق حسین نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم سیاسی رائے عامہ کبھی ایک جیسی نہیں رہی۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے دارالعلوم دیوبند تک کے فکری تنوع کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان نظریاتی اختلافات اور رجحانات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ اشتیاق حسین نے ایسے علمی اختلافات کو قبول کرنے کی اپیل کی جس میں خواتین، علاقائی گروہ، انصاف پسند دانشور اور سماجی کارکنان شامل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہی متنوع زمینی حقائق کی عکاسی کرتے ہیں۔
سوال و جواب کے سیشن میں انہوں نے صنفی مسائل، سیاسی شمولیت، تعلیم اور مسلمانوں کے تعلق سے موجودہ بیانیہ پر گفتگو کی۔ انہوں نے خواتین کی قیادت میں تنظیموں، جمہوری اداروں کی تشکیل اور ایسی قیادت کی ضرورت پر زور دیا جو سماجی و معاشی مسائل کی بہتری سے وابستہ ہو۔ مسلمانوں کو ’حملہ آور‘ کے طور پر پیش کئے جانے کے بیانیے پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دعوے غیر تاریخی اور نفرت پر مبنی بیانیہ کو جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ تاریخی طور پر حملہ آور زیادہ تر ترک، وسطی ایشیائی یا عرب تھے۔ جلسے کےاختتام پر انہوں نے کہا کہ یکساں شناخت کا نظریہ مشترکہ ثقافتی معاشرے سے متصادم ہے۔
ویبینار کا آغاز آئی ایچ ایف کی ریسرچ اسسٹنٹ کو آرڈینیٹر حمیرہ عفرین کے افتتاحی کلمات سے ہوا، جنہوں نے فورم اور ڈاکٹر حسین کا تعارف کرایا۔ انہوں نے ڈاکٹر حسین اور تمام شرکاءکا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے اسی طرح کے معلوماتی، جامع اور علمی بنیادوں پر مبنی مکالمے منعقد کرنےکے لیے انڈین ہسٹری فورم کے عزم کا اعادہ کیا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais