33ویں سنی اجتماع میں بے حیائی کے خطرات پر مؤثر گفتگو، نکاح کے تقدس، خاندانی استحکام اور حیا کے فروغ پر زور
33ویں سنی اجتماع میں بے حیائی کے خطرات پر مؤثر گفتگو، نکاح کے تقدس، خاندانی استحکام اور حیا کے فروغ پر زور اسلامی تاریخ کی نامور خواتین کی غیر معمولی خدمات کا تذکرہ ممبئی، 12 دسمبر(ہ س)۔ آزاد میدان میں منعقدہ 33ویں سالانہ بین
33ویں سنی اجتماع میں بے حیائی کے خطرات پر مؤثر  گفتگو، نکاح کے تقدس، خاندانی استحکام اور حیا کے فروغ پر زور


33ویں سنی اجتماع میں بے حیائی کے خطرات پر مؤثر گفتگو، نکاح کے تقدس، خاندانی استحکام اور حیا کے فروغ پر زور

اسلامی

تاریخ کی نامور خواتین کی غیر معمولی خدمات کا تذکرہ

ممبئی، 12 دسمبر(ہ س)۔

آزاد میدان میں منعقدہ 33ویں

سالانہ بین الاقوامی سنی اجتماع کے افتتاحی دن خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے

حضرت مولانا شاکر نوری نے معاشرتی بگاڑ کی بنیادی وجہ بے حیائی اور زنا کو قرار دیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف فرد کی لغزش نہیں بلکہ وہ اجتماعی برائیاں ہیں جو

قوموں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ مولانا نے بے حیائی کے چار سنگین نتائج بیان کیے—معاشروں

میں ناگہانی اموات کا بڑھ جانا، قحط و معاشی بحران کا پھیلنا، قوموں کا تنزّل، اور

چہرے کے روحانی نور کا زوال۔

مولانا

نوری نے نکاح کے مقدس رشتے کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ میاں بیوی کے درمیان

محبت، اعتماد اور وفاداری خاندانی نظام کی بنیاد ہے۔ تاہم، موجودہ ڈیجیٹل ماحول نے

غیر حقیقی توقعات کو جنم دیا ہے جو اکثر ناجائز تعلقات اور گھریلو ٹوٹ پھوٹ کا سبب

بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عورت گھر کا روحانی مرکز ہے، اور اس کی اصل خوب صورتی

اس کا اخلاق اور حیا ہے، جس سے نسلیں سنورتی ہیں اور معاشرے میں پاکیزگی پروان

چڑھتی ہے۔

اجتماع

سے عالمِ اسلام کے جید عالم، ورلڈ اسلامک مشن لندن کے سیکریٹری جنرل علامہ قمر

الزماں خان اعظمی نے بھی جامع خطاب فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے عورت کی قدر

و منزلت کو بلند کیا، اسے عزت، وقار اور سماجی قیادت عطا کی، جب کہ اسلام سے قبل

دنیا کے کئی خطوں میں عورت کی حالت افسوس ناک تھی—کنیز کی طرح فروخت کی جاتی تھی،

احساسات پر سوال اٹھایا جاتا تھا اور کئی خطوں میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا

تھا۔

علامہ

اعظمی نے کہا کہ اسلام نے عورت کو علمی، سماجی، طبی اور فکری شعبوں میں قیادت کا

موقع دیا۔ انہوں نے تاریخی مثالوں کے طور پر حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ

زہرا رضی اللہ عنہن کی خدمات، صلح حدیبیہ میں حضرت ام سلمہ کا مشورہ، بغداد و دمشق

کی محدثات اور رفیدہ الاسلامیہ کی نرسنگ خدمات کا ذکر کیا۔ انہوں نے فاطمہ الفہریہ

کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی جامعہ القرویین انہی کی قائم

کردہ ہے، جسے یونیسکو دنیا کی قدیم ترین فعال یونیورسٹی قرار دیتا ہے۔

علامہ

نے کہا کہ ماں بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ اسی کے اخلاق، صبر اور تربیت سے بچے میں

انسانیت کے اوصاف پنپتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے امام اہل سنت اور صدر الافاضل کے

اقوال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر مسلمان عورت کے لیے علم دین حاصل کرنا فرض ہے اور

سماجی اصلاح میں عورت مرد کی برابر شریک ہے۔

ہندوستھان

سماچار

ہندوستان سماچار / جاوید این اے


 rajesh pande