تیندوں کے بڑھتے حملوں پر حکومت کی دلچسپ حکمت عملی ، جنگلات میں ایک کروڑ کی بکریاں چھوڑنےکا فیصلہ
ناگپور، 11 دسمبر (ہ س) ریاست کے کئی دیہی علاقوں میں تیندوں کے حملوں اور انسانی جان کے ضیاع کے بڑھتے واقعات کے پس منظر میں، مہاراشٹر حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک نئی اور غیر معمولی حکمت عملی پر غور شروع کر دیا
MAHA WILDLIFE LEOPARD ATTACK MEASURES


ناگپور،

11 دسمبر (ہ س) ریاست کے کئی دیہی علاقوں میں تیندوں کے حملوں اور انسانی

جان کے ضیاع کے بڑھتے واقعات کے پس منظر میں، مہاراشٹر حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے

کے لیے ایک نئی اور غیر معمولی حکمت عملی پر غور شروع کر دیا ہے۔ وزیر جنگلات گنیش

نائک نے اسمبلی میں بتایا کہ جنگلاتی علاقوں میں تیندوں کے لیے مستقل خوراک کی

فراہمی کے مقصد سے ایک کروڑ روپے مالیت کی بکریاں چھوڑنے کی تجویز پیش کی گئی ہے،

تاکہ تیندوے شکار کی تلاش میں انسانی بستیوں کی جانب رخ نہ کریں۔

وزیر نے

وضاحت کی کہ تیندوں کے حملوں میں اگر چار افراد ہلاک ہو جائیں تو ریاست کو تقریباً

ایک کروڑ روپے معاوضہ دینا پڑتا ہے۔ اس پس منظر میں، نائک نے کہا کہ ’’بجائے اس کے

کہ ہم بار بار معاوضے ادا کریں، بہتر ہے کہ ہم تیندوں کے لیے خوراک کا بندوبست

براہ راست جنگل میں ہی کریں، جس سے ان کی نقل و حرکت پر قابو پایا جا سکے گا۔‘‘

انہوں

نے یہ بھی بتایا کہ پونے، ناسک اور احمد نگر کے کئی علاقوں میں تیندوں اپنے روایتی

رہائشی مقامات سے نکل کر گنے کے کھیتوں کے اندر چھپنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے انسانوں

اور تیندوں کے درمیان تصادم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے

حکومت جنگلات میں پھل دینے والے درخت لگانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے تاکہ تیندوں

کے مسکن میں وسعت آئے اور ان کی توجہ بستیوں کی طرف نہ جائے۔

مزید

برآں، ریاست نے مرکز کو یہ تجویز بھیجی ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے قانون میں تیندوے

کو شیڈول اوّل سے ہٹا کر شیڈول دو میں شامل کیا جائے، تاکہ آبادی کے نظم و نسق میں

زیادہ لچک میسر ہو سکے اور ضرورت کے مطابق انتظامی کارروائی کی جا سکے۔

واضح

رہے کہ گزشتہ تین مہینوں میں پونے ضلع کے جنر تعلقہ سمیت مختلف علاقوں میں تیندوں

کے حملوں میں 55 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس کے بعد سے یہ معاملہ قانون ساز ایوانوں

میں شدید تشویش اور بحث کا موضوع بن گیا ہے۔

ہندوستھان

سماچار

--------------------

ہندوستان سماچار / جاوید این اے


 rajesh pande