آسٹریا سکولوں میں اسلامی حجاب پر پابندی کے قانون پر رائے شماری
ویانا،11دسمبر(ہ س)۔ جمعرات کو آسٹریا کے قانون سازوں کے ایک قانون منظور کرنے کی توقع ہے جو 14 سال سے کم عمر بچیوں کے سکولوں میں اسلامی حجاب پر پابندی عائد کرتا ہے۔ یہ اقدام انسانی حقوق کے گروپوں اور ماہرین کی نگاہ میں امتیازی ہے اور یہ معاشرتی تقسی
آسٹریا سکولوں میں اسلامی حجاب پر پابندی کے قانون پر رائے شماری


ویانا،11دسمبر(ہ س)۔

جمعرات کو آسٹریا کے قانون سازوں کے ایک قانون منظور کرنے کی توقع ہے جو 14 سال سے کم عمر بچیوں کے سکولوں میں اسلامی حجاب پر پابندی عائد کرتا ہے۔ یہ اقدام انسانی حقوق کے گروپوں اور ماہرین کی نگاہ میں امتیازی ہے اور یہ معاشرتی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔قدامت پسند جماعت کے زیرِ قیادت آسٹریا کی حکومت نے اس سال کے شروع میں پابندی کی تجویز پیش کی تھی اور وہ اس وقت شدید امیگریشن مخالف جذبات کے دباو¿ میں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ لڑکیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے ہے۔جب ملک میں 2019 میں پرائمری سکولوں میں حجاب پر پابندی متعارف کروائی گئی تو آئینی عدالت نے اسے غیر آئینی اور امتیازی قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔ تاہم اس بار حکومت کا اصرار ہے کہ اس کا قانون آئینی ہے۔

منظوری کی صورت میں یہ قانون تمام سکولوں میں 14 سال سے کم عمر بچیوں کو سر پر حجاب پہننے سے روک دے گا جو اسلامی روایات کے مطابق سر ڈھانپنے کا طریقہ ہے۔ انٹیگریشن کی وزیر کلاڈیا پلاکولم نے بل پیش کرتے ہوئے کہا، جب کسی لڑکی کو یہ کہا جاتا ہے کہ اسے مردوں کی نظروں سے بچانے کے لیے اپنا جسم چھپانا چاہیے تو یہ کوئی مذہبی رسم نہیں بلکہ ظلم ہے۔پلاکولم نے کہا کہ اس پابندی کا اطلاق حجاب اور برقع سمیت اسلامی نقاب کی تمام صورتوں پر ہوتا ہے جو ستمبر میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ مکمل طور پر نافذ ہو جائے گا۔فروری سے اس کے لیے ایک ابتدائی مدت شروع ہو گی جس کے دوران ماہرینِ تعلیم، والدین اور بچوں کو نئے قوانین کی وضاحت کی جائے گی جن کی خلاف ورزی پر کوئی جرمانہ نہیں ہو گا۔لیکن بار بار عدم تعمیل پر والدین کو 150 سے 800 یورو (175-930 ڈالر) تک کے جرمانے کا سامنا کرنا ہو گا۔حکومت نے کہا کہ نئے قانون سے تقریباً 12,000 بچیاں مت?ثر ہوں گی۔ یہ اعداد و شمار 2019 کی ایک تحقیق پر مبنی ہیں جس کے مطابق 14 سال سے کم عمر کی تقریباً 3,000 بچیاں چھے سال قبل سر پر حجاب پہنتی تھیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل آسٹریا سمیت حقوق کی تنظیموں نے اس بل پر تنقید کی ہے۔ایمنسٹی نے کہا ہے کہ یہ مسلم بچیوں کے خلاف صریح امتیازی سلوک ہے اور اسے مسلم مخالف نسل پرستی کا اظہار قرار دیا ہے۔گروپ نے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات سے مسلمانوں کے خلاف موجودہ تعصبات اور دقیانوسی تصورات کو تقویت ملنے کا خدشہ ہے۔مسودہ قانون پر آئی جی جی او ای نے بھی تنقید کی ہے جو ملک کے مسلم طبقے کی باضابطہ نمائندگی کرنے والا ادارہ ہے۔اس نے کہا، یہ پابندی سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرے کا باعث ہے اور بچوں کو بااختیار بنانے کے بجائے انہیں بدنامی سے داغدار اور معاشرتی دھارے سے الگ کر دیا گیا ہے۔خواتین کے حقوق کی انجمن ایمازون کی منیجنگ ڈائریکٹر انجلیکا اٹزنگر نے کہا، حجاب پر پابندی لڑکیوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ان کے جسم کے بارے میں فیصلے ہو رہے ہیں اور یہ کہ یہ جائز ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande