وندے ماتر م کے سلسلے میں وزیر اعظم کا بیان گمراہ کن : محمود مدنی
۔ محمود مدنی نے اسکولوں میں اسے لازم قرارینے کو مسلمانوں کے مذہبی عقیدے کی آزادی سلب کرنے کے مترادف قرار دیا
وندے ماتر م کے سلسلے میں وزیر اعظم کا بیان گمراہ کن


نئی دہلی، 8 نومبر (ہ س)۔ جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کئی ریاستوں کے بلاک ایجوکیشن آفیسر س کی جانب سے تمام سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کے طلبہ و سرپرستوں کو ’وندے ماترم‘ گانے اور اس کی ویڈیو ریکارڈنگ کی ہدایت دیے جانے کو آئینِ ہند کے تحت حاصل مذہبی آزادی کی صریح خلاف ورزی قراردیا ہے اور اسے خطرناک نظیر بتایا ہے۔ مولانا مدنی نے اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان پر جس میں انہوں نے وَندے ماترم کے بعض اشعار کے حذف کیے جانے کو تقسیمِ ہند سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ، کو گمراہ کن اور خلاف حقیقت بتایا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ نظم مکمل طور پر شرکیہ عقائد و نظریات پر مبنی ہے ، بالخصوص اس کے باقی چار اشعارمیں وطن کو درگا ماتا سے تشبیہ دے کر اس کی عبادت کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو کسی بھی مسلمان کے ایمان و عقیدہ کے خلا ف ہے ، ہندوستان کا آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی (دفعہ 25) اور اظہارِ رائے کی ا?زادی (دفعہ 19) فراہم کرتا ہے۔ان دفعات کے تحت کسی بھی شہری کو اس کے مذہبی عقیدے یا ضمیر کے خلاف کسی نعرے، گیت یا نظریے کو اپنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ معزز سپریم کورٹ کا بھی یہ فیصلہ ہے کہ کسی بھی شہری کو قومی ترانہ یا کوئی ایسا گیت گانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو اس کے مذہبی عقیدے کے خلاف ہو۔مولانا مدنی نے واضح کیا کہ محبت اور عبادت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مسلمانوں اس ملک سے کس قدر محبت کرتے ہیں، یہ کسی کو باور کرانے ضرورت نہیں ہے۔ اس ملک کی وحدت و سلامتی کی حفاظت اور آزادی کی تحریک میںمسلمانوں کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ ہمارا یہ موقف ہے کہ حب الوطنی کا تعلق دلوں کی وفاداری اور عمل سے ہے، نعرے بازی سے نہیں۔مولانا مدنی نے وندے ماترم کے تناظر میں وزیر اعظم کے بیان کو بھی خلاف حقیقت قرار دیا اور کہا کہ تاریخی ریکارڈ بالکل واضح ہے کہ 26 اکتوبر 1937ءکو رابندر ناتھ ٹیگور نے پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط میں مشورہ دیا تھا کہ وندے ماترم کی صرف ابتدائی دو بندوں کو قومی گیت کے طور پر قبول کیا جائے، کیونکہ بقیہ اشعار توحید پرست مذاہب کے عقائد سے متصادم ہیں۔یہی بنیاد تھی جس پر کانگریس ورکنگ کمیٹی نے 29 اکتوبر 1937ءکو فیصلہ کیا کہ صرف دو بندوں کو قومی گیت کے طور پر منظور کیا جائے۔اس لیے آج ٹیگور کے نام کا غلط استعمال کرکے جبراً اس نظم کو مسلط کرنے یا اس کے مکمل گانے کی بات کرنا نہ صرف تاریخی حقائق کے خلاف ہے بلکہ ملکی وحدت کے تصور کی توہین اور گروجی ٹیگور کی تحقیر بھی ہے۔یہ بھی قابل افسوس ہے کہ وزیر اعظم نے اس عمل کو تقسیم ہند سے جوڑا ہے ، جب کہ رابندر ناتھ کا ٹیگور کا مشورہ قومی وحدت کے لیے تھا۔مولانا مدنی نے زور دیا کہ وَندے ماترم“ سے متعلق بحث دراصل مذہبی عقائد کے احترام اور آئینی آزادی کے دائرے میں ہونی چاہیے، نہ کہ سیاسی الزام تراشی کے انداز میں۔ جمعیة علماءہند وزیر اعظم اور تمام قومی رہنماو¿ں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ایسے حساس مذہبی و تاریخی معاملات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ ملک میں باہمی احترام، رواداری اور اتحاد کو فروغ دینے کی اپنی آئینی ذمہ داری پر کاربند رہیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande