
ممبئی
، 8 نومبر(ہ س)۔ بامبے
ہائی کورٹ نے ایک طویل مدتی مقدمے میں انصاف فراہم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بیوی
کے والدین کے بیانات کو واحد بنیاد بنا کر شوہر یا سسرال والوں کو مجرم نہیں ٹھہرایا
جا سکتا۔ عدالت نے کہا کہ والدین کے تاثرات اگر ٹھوس شواہد سے ثابت نہ ہوں تو وہ
محض جذباتی بیانات تصور ہوں گے۔
یہ کیس
1997 کے نومبر ماہ سے متعلق ہے، جب پونے کے بوپوڈی علاقے میں ریکھا نامی خاتون نے
ندی میں کود کر خودکشی کی تھی۔ اس واقعے کے بعد اس کے شوہر رام پرکاش منوہر کو
پونے سیشن کورٹ نے دفعہ 498A اور 306 کے تحت سزا سنائی تھی۔ تاہم، اس فیصلے
کو انہوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔
جسٹس
ملند ساٹھے کی سنگل بنچ نے اپیل پر سماعت کرتے ہوئے پایا کہ مقدمے میں پیش کیے گئے
شواہد ناقص تھے اور والدین کی گواہی میں واضح تضادات موجود تھے۔ عدالت نے کہا کہ
بیوی کے والدین کا یہ کہنا کہ ان کی بیٹی شادی سے ناخوش تھی، شوہر کے خلاف
جرم ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
ریکارڈ
کے مطابق، ریکھا 13 نومبر 1997 کو لاپتہ ہوئی تھی اور اس کے والدین نے پولیس کو
شکایت درج کرائی تھی، مگر اس شکایت میں شوہر یا سسرال والوں کے خلاف کسی طرح کے
ظلم یا تشدد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اس بنیاد پر سیشن کورٹ کے فیصلے کو
منسوخ کر کے شوہر کو بری کر دیا۔
عدالت
کے مطابق، جرم ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد ضروری ہیں، محض جذباتی یا قیاس آرائی
پر مبنی بیانات نہیں۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو گھریلو تشدد کے مقدمات میں ایک اہم
قانونی رہنما اصول کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو مستقبل میں ایسے معاملات میں
رہنمائی فراہم کرے گا۔
ہندوستھان
سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / جاوید این اے