

۔ زرعی طور-طریقوں میں علوم، اختراعات اور پالیسی سازی کا ایک اہم مرکز ہے ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی
۔ جموں ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر بی این ترپاٹھی کے ساتھ خصوصی بات چی
رامانوج شرما
نئی دہلی، 6 نومبر (ہ س)۔ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی) نہ صرف ایک زرعی یونیورسٹی ہے بلکہ شمالی ہندوستان کی اس پہاڑی اور سرحدی ریاست کے زرعی ماحولیاتی نظام میں علم، اختراعات اور پالیسی سازی کا ایک اہم مرکز بھی ہے۔ جموں خطے کا جغرافیائی اور موسمی تنوع یہاں کی زراعت کو منفرد بناتا ہے، جہاں ایک طرف دنیا بھر میں مشہور خوشبودار باسمتی چاول اپنے ذائقے سے لوگوں کو دیوانہ بنا رہا ہے تو دوسری طرف راجماش، زعفران، اخروٹ، نیبو کے اقسام والے پھل اور ادویاتی پودے جیسی خصوصی فصلیں بھی یہاں کی منفرد پہچان ہیں۔
یونیورسٹی نے اپنی تحقیق کے ذریعے جموں باسمتی چاول کی منفرد قسم کی کاشت کو اب ملک کے شمال مغربی علاقے کے کسانوں کے لیےبھی آسان بنا دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پنجاب اور میرٹھ کے علاقے میں بھی اس کی کاشت ہونا شروع ہو گئی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب جموں کے باسمتی چاول کی اقسام کے -118، 123 اور 138 ملک کے مختلف حصوں میں اگائی جائیں گی اور عام لوگوں کو بھی یہ کھانے کے لیے دستیاب ہوں گی۔ یہ یونیورسٹی میں تحقیق اور اختراع سے ممکن ہوا ہے۔ یونیورسٹی کا مقصد ان منفرد فصلوں کی پیداواری صلاحیت، معیار اور مارکیٹ ویلیو کو بڑھانا ہے، انہیں قومی اور بین الاقوامی برانڈ بنانا ہے۔
ہمارے ملک کا تاج کہنے جانے والی ریاست جموں وکشمیر کی ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر بی این ترپاٹھی سے ہم ان اہم موضوعات پر کچھ سوالات کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھوں نے اس ذمہ داری کے تحت کیا نمایاں کام انجام دیے اور اس پہاڑی ریاست کی زرعی یونیورسٹی کو مختلف شعبوں میں نئی بلندیوں کو حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ ہندوستھان سماچار کے ساتھ ورچوئل وسیلے سے کئی گئی خصوصی بات چیت میں ان سے پوچھے گئے سوالات کے اقتباسات درج ذیل ہیں۔
سوال: وائس چانسلر ڈاکٹر ترپاٹھی، آپ جموں زرعی یونیورسٹی (ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی) کو کس طرح دیکھتے ہیں اور آپ اسے ریاست اور ملک کی ترقی میں کس طرح مفید سمجھتے ہیں؟
جواب: یہ یونیورسٹی شمالی ہندوستان کے پہاڑی اور سرحدی زرعی ماحولیاتی نظام کے لیے علم، اختراعات اور پالیسی سازی کا ایک اہم مرکز ہے۔ اس کے بہت سے علاقے فطری طور پر نامیاتی اور قدرتی کاشتکاری کے لیے موزوں ہیں، جنہیں ہم سائنسی تکنیکوں، بائیو کنٹرول لیبارٹریوں اور اعلیٰ معیار کے پودے لگانے کے مواد کے ذریعے بااختیار بنا رہے ہیں۔ جموں زرعی یونیورسٹی ایک کثیر موضوعاتی، آئی سی اے آر گریڈ ’اے‘ سے منظور شدہ زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی ہے، جو تعلیم، تحقیق، توسیع اور کاروباری ترقی کے چاروں جہتوں میں یکساں طور پر کام کر رہی ہے۔ چونکہ جموں و کشمیر کی 70 فیصد آبادی کا انحصار زراعت اور اس سے منسلک شعبوں پر ہے، اس لیے ہماری ذمہ داری صرف تعلیم اور تحقیق تک ہی نہیں، بلکہ کسانوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور روزی روٹی کی حفاظت تک بھی ہے۔ یہ ملک کی صرف تین ریاستی زرعی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جسے باوقار جی-20 یونیورسٹی آو¿ٹ ریچ پروگرام کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے۔
سوال: ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی جموں کی اہم تحقیقی ترجیحات کیا ہیں اور یہ ملک کی زرعی ضروریات سے کس طرح منسلک ہیں؟
جواب: تحقیق زرعی ترقی کا سنگ بنیاد ہے، اور جموں زرعی یونیورسٹی اعلیٰ معیار کی تحقیق کے ذریعے زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں اختراعات اور پائیدار ترقی کو فروغ دے رہی ہے۔ بائیوٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، یونیورسٹی نے بیکٹیریل بلائیٹ کے خلاف مزاحمتی رنبیر باسمتی کی بہتر قسم کو تیار کیا ہے اور بلاسٹ مزاحمتی کے-343 دھان لائن تیار کی ہے۔ ہم مالیوکیولر بریڈنگ اور مارکر اسسٹیڈ سلیکشن کے ذریعے نئی قسمیں تیار کر رہے ہیں، جیسے کہ بیماری سے بچنے والے مٹر اور سفید زنگ سے بچنے والی سرسوں۔ اس کے ساتھ ہی 21 اقسام کی ڈی این اے فنگر پرنٹنگ مکمل کر لی گئی ہے اور براسیکا جونسیا اور اینٹی آکسیڈینٹ جین کی ترتیب سے متعلق معلومات عالمی این جی ایس ڈیٹا بیس میں جمع کر دی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ”یونیورسٹی نے ٹیکنالوجی مینجمنٹ اور انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس پالیسی اپنائی ہے، جس کے تحت یونیورسٹی کو 60 سے زیادہ پیٹنٹس/کاپی رائٹس مل چکے ہیں، جو تحقیق اور اختراع کے میدان میں اس کی مسلسل ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔“ گزشتہ ڈیڑھ برس میں فصل کی 10 نئی اقسام کو نوٹیفائی کیا گیا ہے اور 6 نئی اقسام جلد ریلیز کے لیے تیار ہیں جن میں 2 اخروٹ، 2 پیکان نٹ، 1 گوبھی اور 1 لہسن شامل ہیں۔
سوال: طلباءاور اساتذہ میں اختراعات، انٹرپرینیورشپ اور اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینے کے لیے کیا کوششیں کی جا رہی ہیں؟
جواب: جموں زرعی یونیورسٹی کا بنیادی مقصد جموں و کشمیر میں زراعت اور جنگلات کے شعبے میں انٹرپرینیورشپ (صنعت کاری) اور اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینا ہے۔ یونیورسٹی نے اب تک 106 سے زیادہ نوجوانوں کو انکیوبیٹ کیا ہے، جن میں سے 31 اسٹارٹ اپس کو زراعت اور کسانوں کی بہبود کی وزارت، حکومت ہند کی طرف سے 3 کروڑ روپے سے زیادہ کی مالی معاونت کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ ہماری توجہ دیہی نوجوانوں کو زراعت پر مبنی کاروباری اداروں کے قیام کے لیے ترغیب دینے پر ہے۔ ان اقدامات کا مقصد نوجوانوں کو بااختیار بنانا، دیہی معیشت کو مضبوط کرنا اور زرعی شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔
سوال: ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی جموں خطے کے کسانوں تک نئی زرعی ٹیکنالوجیز اور اختراعات پھیلانے کے لیے کس طرح کام کر رہی ہے؟
جواب: ایک زرعی یونیورسٹی کے طور پر، یہ کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہے۔ ہمارا ہدف شدہ توسیعی کام سالانہ دو لاکھ سے زیادہ کسانوں تک پہنچتا ہے۔ آج جموں زرعی یونیورسٹی زرعی توسیع کے میدان میں ایک علامت بن کر ابھری ہے۔ ہم نے اپنا پہلا کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن -’ریڈیو کسان‘ شروع کیا۔ یہ ریڈیو اسٹیشن کسانوں میں تیزی سے مقبول ہو گیا، کیونکہ یہ بروقت مشورہ اور کسانوں پر مرکوز مواد فراہم کرتا ہے۔
سوال: ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی کی پالیسیوں کے مطابق زرعی تعلیم کے معیار اور عالمی مسابقت کو بڑھانے کے لیے آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟
جواب: ہم یونیورسٹی کو بین الاقوامی سطح پر مسابقتی اور علم سے بھرپور ادارہ بنا رہے ہیں۔ ہماری ترجیح تعلیم کی بین الاقوامی کاری کو فروغ دینا ہے تاکہ طلبا عالمی معیار کی تحقیق، تدریس اور اختراعی سہولیات تک رسائی حاصل کر سکیں۔ ہم قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی-2020) کو کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے والی ملک کی سرکردہ زرعی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہیں۔ اس پالیسی کے تحت، یونیورسٹی نے اپنے تمام تعلیمی پروگراموں کو مہارت پر مبنی، کثیر موضوعاتی اور سیکھنے کے مضبوط فریم ورک میں تبدیل کیا ہے۔
سوال: آپ یونیورسٹی میں تحقیق، تدریس اور اختراع سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی کس طرح حوصلہ افزائی کر رہے ہیں؟
جواب: یونیورسٹی کے تحقیق، تدریس، اور اختراعی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے کئی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔ تقریباً 132 کروڑ روپے کی لاگت سے نئی تحقیقی سہولیات تیار کی جا رہی ہیں، جن میں ریموٹ سینسنگ اور جی آئی ایس لیبارٹری، باسمتی چاول ریسرچ سنٹر، اخروٹ پروسیسنگ اور پیکیجنگ سنٹر، سسٹنیبل ایکواکلچر انوویشن سینٹر، جین بینک، کولڈ اسٹوریج کی سہولیات، فشریز انفراسٹرکچر، پولٹری پروڈکشن یونٹ، کوالٹی کنٹرول لیب، مشروم سینٹر پر پاسچیورائزیشن پلانٹ اور مصنوعی ذہانت لیب شامل ہیں۔
سوال: باغبانی جموں و کشمیر کی معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے۔ آپ کی یونیورسٹی اس شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے کیا کوششیں کر رہی ہے؟
جواب: ہماری یونیورسٹی نے باغبانی اور جنگلات کی تحقیق میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ سنٹر آف ایکسیلنس (سی او ای ) باغبانی کی تحقیق اور اعلیٰ معیار کے پودوں کی پیداوار کو فروغ دینے والا ایک اہم مرکز ہے۔ یہ 10 ہیکٹیئر کے رقبے پر محیط ہے اور ہر سال تقریباً 500,000 پودوں کی پیدا وار کرتا ہے۔ ہمارے مختلف تحقیقی مراکز میں امرود، آم اور لیموں کے زیادہ کثافت والے باغات تیار کیے جا رہے ہیں۔
سوال: آپ نے کون سے ایسے کام کیے ہیں جن کے یونیورسٹی اور انتظامی سطح پر دور رس نتائج برآمد ہوئے ہیں؟
جواب: ایک ویٹرنری سائنسدان کے طور پر، ایس کے یو اے ایس ٹی یونیورسٹی جموں میں میرا مقصد جانوروں کی سائنس کی تحقیق کو عملی، علاقائی ضروریات پر مبنی اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ بنانا ہے۔ وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، میں نے یونیورسٹی کو پیشہ ورانہ اور مستقبل کے لیے تیار کرنے کے لیے کئی اقدامات شروع کیے ہیں۔ اس میں نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک (این آئی آر ایف) میں یونیورسٹی کی شمولیت بھی شامل ہے۔ یونیورسٹی اب اس درجہ بندی میں شامل ہے اور تازہ ترین 2025 کی درجہ بندی کے مطابق اسے ریاستی زرعی یونیورسٹیوں میں 12 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
اس سے قبل یہاں محدود تجربہ گاہیں تھیں اور تحقیق کے لیے آلات ناکافی تھے، ہم نے تحقیقی صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیے تمام ضروری اعلیٰ ترین آلات اور لیبارٹریز نصب کیں۔
سوال: آپ کن اہداف یا شعبوں کو ابھی تک نامکمل سمجھتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے آپ کی کیا حکمت عملی ہے؟
جواب: اگرچہ ہم نے اپنے مقررہ اہداف میں سے زیادہ تر کامیابی کے ساتھ حاصل کر لیے ہیں، پھر بھی آئندہ کے لئے کچھ اہم اہداف ہمارے سامنے ہیں، جن پر ہم خصوصی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ میں جموں زرعی یونیورسٹی کو ”ایک جامع زرعی اختراعی مرکز“ کے طور پر دیکھتا ہوں، جو زراعت، کسانوں، باغبانی، مویشیوں اور قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہماری ہر کوشش ”سائنسی زراعت کے ذریعے خود انحصار کسان اور خوشحالی کے ذریعے آتم نربھر بھارت“ کوتقویت دینے کی سمت میں ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد