اے ایم یو میں اردوکتاب میلہ کا انعقاد ہمارے لیے ادبی و ثقافتی جشن ہے: پروفیسر نعیمہ خاتون
علی گڑھ, 22 نومبر (ہ س)۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعہ اے ایم یو میں سی ای سی اور سرسید اکیڈمی، اے ایم یو کے اشتراک سے 9 روزہ اردو کتاب میلے کا افتتاح اے ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر
اردو کتاب میلہ


علی گڑھ, 22 نومبر (ہ س)۔

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعہ اے ایم یو میں سی ای سی اور سرسید اکیڈمی، اے ایم یو کے اشتراک سے 9 روزہ اردو کتاب میلے کا افتتاح اے ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شمس اقبال اور دیگر معززین کی موجودگی میں کیا ۔ کتاب میلے میں پچاس سے زائد پبلیشرز شرکت کررہے ہیں جہاں ہر روز مختلف ثقافتی اور علمی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ نیشنل کونسل فار پروموشن آف اُردو لینگویج (این سی پی یو ایل) کے تعاون سے منعقد ہونے والااُردو کتاب میلہ ہمارے لیے ایک ثقافتی اور علمی جشن کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ میلہ صرف کتابوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک فکری تحریک ہے، ایک ایسی تحریک جو زبان، ادب، تحقیق، اور سماجی شعور کو بلندیوں تک لے جانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

پروفیسر نعیمہ خاتون نے اس موقع پر بتایا کہ مرکزی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے اجلاس میں مرکزی وزیر تعلیم جناب دھرمیندر پردھان نے ان سے کہا تھا کہ اردو ہماری اپنی زبان ہے اس کی ترقی کے لئے ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے۔ مرکزی وزیر تعلیم نے خاص طور سے یہ بھی کہا کہ آپ لوگ اردو میں کتابیں شائع کیجئے، چاہے وہ نصاب کی کتاب ہو یا حوالہ جاتی کتاب، اچھی سے اچھی کتابیں شائع کیجئے اور اردو کو پاپولرائز کیجئے۔

وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ہمارے اساتذہ اردو میں معیاری کتب تصنیف کریں، انھیں ہم اہتمام کے ساتھ شائع کریں گے۔ وائس چانسلر نے مزید کہا کہ اُردو ہماری تہذیب کی وہ نادر اور لطیف زبان ہے جس کے دامن میں محبت کے نغمے بھی ہیں، مُزاحمت کی صدائیں بھی، اور فکری استدلال کی روشنی بھی۔ اس زبان نے ہر دور میں اپنا وقار برقرار رکھا، اور ہر عہد کے بڑے سے بڑے مصنف، شاعر اور مفکر نے اسے اپنے جذبات، نظریات اور تخلیقات کا وسیلہ بنایا۔آج کا یہ کتاب میلہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہم کتاب کلچر کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، ہم مطالعے کی روایت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، اور ہم اپنی زبانوں کی ترویج و ترقی کے لیے بیدار اور پُرعزم ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا نے بلاشبہ معلومات کے در کھولے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کتاب کا لَمس، اس کی خوشبو، اس کی سنجیدگی اور اس کی گہرائی کسی اسکرین پر میسر نہیں آ سکتی۔انھوں نے کہا ”میں چاہتی ہوں کہ ہمارے طلبہ یہاں آئیں، یہ کتابیں اٹھائیں، ان کے صفحات پلٹیں، ان میں سوال ڈھونڈیں اور ان کے جواب تلاش کریں۔ مطالعہ صرف معلومات کا حصول نہیں بلکہ ذہنی تربیت، کردار سازی، اور فکری روشنی کا سفر ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہاں سے کوئی طالب علم ایک نئی کتاب کے ساتھ ایک نئی سمت، نئے سوال، اور نئی جستجو لے کر رخصت ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ادب و ثفافت کے مختلف رنگوں سے روبرو ہونے، غزل، طرحی مشاعرہ، داستان گوئی سے محظوظ ہونے اور مصنفین سے ملاقات اور گفتگو کے بھی مواقع میسر آئیں گے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ بچوں کے لئے بھی یہاں مختلف پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں“۔

وائس چانسلر نے این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ این سی پی یو ایل نے اُردو زبان وثقافت کی خدمت کے لئے ہمیشہ فعال کردار ادا کیا ہے۔ کتابوں کی اشاعت، زبان کی ترویج، تحقیق کے مواقع، یہ سب این سی پی یو ایل کے وہ کارنامے ہیں جن کی قدر علمی حلقوں میں ہمیشہ کی جائے گی۔ این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے اپنے تعارفی کلمات میں کتاب میلے کو دانشوری کے ڈسکورس کو فروغ دینے کا ایک پلیٹ فارم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ہندی اور انگریزی کے بعد سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان اردو ہے اس لئے اردو کے فروغ کے تئیں مثبت ذہن اور مستقبل بینی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ اردو زبان کی اصلاح میں اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خاں کا کلیدی کردار رہا ہے اور اردو تہذیب و روایت سے اے ایم یو کا گہرا رشتہ ہے، اس لحاظ سے اردو کتاب میلے کے لئے یہ ایک موزوں مقام ہے۔ انھوں نے این سی پی یو ایل کی حالیہ دستیابیوں اور مختلف کتاب میلوں کے انعقاد کے خوشگوار تجربات بھی بیان کئے۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف فکشن نگار جناب سید محمد اشرف نے کہا کہ سوشل میڈیا کے لمحاتی اثرات کے مقابلے کتاب دیر پا اثر مرتب کرتی ہے اور بہتر سماج کی تعمیر و تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کتابوں سے تخیل اور فکری صلاحیتوں کو جِلا ملتی ہے اس لئے نوجوان نسل کو کتابوں سے اپنا رشتہ استوار کرنا چاہئے۔ انھوں نے کتاب میلے میں ادب و ثقافت سے متعلق پروگراموں، مصنفین سے ملاقات اور گفتگو، غزل اور داستان گوئی، طرحی مشاعرہ اور بچوں کے پروگرام کو شائقین کتب و ثقافت کے لئے ایک دلچسپ موقع قرار دیا۔

پروفیسر حکیم سید ظل الرحمٰن نے اپنے صدارتی کلمات میں کہاکہ علی گڑھ کا یہ امتیاز رہا ہے کہ یہاں سائنس، میڈیسن، سرجری، انجینئرنگ، قانون جیسے جدید موضوعات کے اساتذہ اردو کے بھی شناسا اور شناور رہے ہیں۔ زبان کی بھی ایک غیرت و حمیت ہوتی ہے۔ جس زبان کو ہم بول رہے ہیں اس کو سیکھنا آسان ہوتا ہے اس لئے اردو سیکھنا اور پڑھنا چاہئے تاکہ اردو تہذیب زندہ رہے۔سرسید اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خاں نے بک ریڈنگ سوسائٹی قائم کی تھی۔ وہ خود کثیر التصانیف تھے اور یہ کتاب میلہ سرسید کی علمی روایت کی توسیع ہے۔ انھوں نے کتابیں پڑھنے کی افادیت اجاگر کرتے ہوئے کہاکہ سوشل میڈیا پر اور ورچوول طریقہ سے پڑھنے کے اثرات لمحاتی ہوتے ہیں اور توجہ دیر پا نہیں ہوتی، جب کہ کتابیں پڑھنے سے کوگنیٹیو اور تخیلاتی صلاحیتوں کا ارتقا ہوتا ہے۔ پروفیسر قدوائی نے مختلف مفکرین اور دانشوروں کے حوالے سے کتابوں کی افادیت کو نمایاں کیا۔

آخر میں سی ای سی کے کوآرڈینیٹر پروفیسر محمد نوید خاں نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔ افتتاحی اجلاس میں این سی پی یو ایل کی شائع کردہ مختلف کتابوں کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فیضان الحق نے انجام دئے۔ اس موقع پر اساتذہ کرام، طلبہ اور معززین کثیر تعداد میں موجود تھے۔ اس تقریب میں کونسل سے شائع شدہ بچوں کی پانچ کتابوں 'پھولی ہوئی لومڑی' (غضنفر) 'حیرت انگیز کارنامہ' (نعیمہ جعفری پاشا) 'پریم دیوانی میرا' (ثروت خان) 'روبوٹ' (اقبال برکی) اور 'پالکی' (شاہ تاج خان) کا اجرا بھی عمل میں آیا۔افتتاحی پروگرام کے بعد آج کا دوسرا پروگرام 'آئینہ ہے روبرو' (میرا تخلیقی سفر:مصنّفین سے ملاقات) تھا، جس میں پروفیسر طارق چھتاری، پروفیسر غضنفر اور ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے اپنے تخلیقی سفر کے حوالے سے گفتگو کی اور سامعین سے اپنے تجربات شیئر کیے۔ اس پروگرام کے موڈریٹر ڈاکٹر توصیف بریلوی تھے۔

---------------

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande