غالب اکیڈمی میں یک روزہ ریسرچ اسکالر سیمینار کا انعقاد
نئی دہلی،22نومبر(ہ س)۔غالب اکیڈمی،نئی دہلی میںیک روزہ ریسرچ اسکالر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔سیمینار کی صدارت جناب پروفیسر شریف حسین قاسمی نے۔ انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ مضامین خوش اسلوبی سے پڑھے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی نابرابری افسان
غالب اکیڈمی میں یک روزہ ریسرچ اسکالر سیمینار کا انعقاد


نئی دہلی،22نومبر(ہ س)۔غالب اکیڈمی،نئی دہلی میںیک روزہ ریسرچ اسکالر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔سیمینار کی صدارت جناب پروفیسر شریف حسین قاسمی نے۔ انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ مضامین خوش اسلوبی سے پڑھے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی نابرابری افسانوں میں ہی نہیں اب بھی موجود ہے۔تلفظ میں احتیاط کرنی چاہیے۔گجرات میں زبیر قریشی اردو کے مترجم تھے ، گجراتی مراٹھی میں غزل لکھی جاتی ہے۔ ایسے سیمینار کے اچھے نتائج ملیں گے۔ اس موقع پر دہلی اور بیرون دہلی کے اسکالر ز نے دلچسپ مقالے پیش کیے۔دہلی یونیورسٹی سے محمد مناظر حسین نے خواجہ احمد عباس کے افسانوں میں سماجی مسائل کی عکاسی کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پہلا افسانہ ”ابابیل1936میں لکھا گیا،جبکہ ان کا آخری افسانہ ”بھوپال کی کیپٹن سلمہ“ 1987میں ان کے انتقال سے کچھ ماہ قبل منظر عام پر آیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالر عامر مظفر بٹ نے” آغا شورش کاشمیری کا صحافتی رنگ چند معروضات“ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ آغا شورش کاشمیری صحافی اور نثر نگار ہیں۔ان کا قلم ظلم کا عکاس تھا۔ ان کی تحریروں میں جذبات کی شدت اور فکر کی گہرائی ہوتی تھی۔دہلی یونیورسٹی کے محمد رضا چاند نے اپنے مقالے” ممنوعہ حقیقتوں کا بیان: لے سانس بھی آہستہ“میں کہا کہ لے سانس بھی آہستہ مشرف عالم ذوقی کا طویل ناول ہے جس میں تہذیبی تصادم کا ذکر ہے ۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر تحمیدہ اختر نے ”کہنیا لال کپور کے مجموعے سنگ وخشت کا تجزیاتی مطالعہ“ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا ،انہوں نے بتایا کہ طنزو مزح کو ایک اکائی کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ کپورتہہ دار شخصیت کے مالک تھے۔دہلی یونیورسٹی سے محمد سعود رضا نے بسمل عظیم آبادی،شخصیت اور شاعری پر مقالہ پڑھے ہوئے کہا کہ بسمل عظیم آبادکے دبستان سے فیضیاب ہوئے۔تصوف کا اثر تھا ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالر محمد شاہنواز خان نے اپنے مقالے” حالی کی بیان کردہ شعر کی خوبیوں کا تجزیاتی مطالعہ“ پیش کیا۔دہلی یونیورسٹی کی ہما نے اپنے مقالے” رام لعل بحیثیت نثر نگار“ میں کہاکہ رام لعل نے ناول نگار،افسانہ نگار اردو کی ہر صنف میں مضامین لکھے ہیں۔ ان کے کئی خاکوں کے مجموعے اور ریڈیائی ڈرامے شائع ہوئے ہیں۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،حیدر آباد کے اسکالر محمد ریحان عالم نے” ذکیہ مشہدی کی افسانہ نگاری “ عنوان سے مقالہ پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ چمپا کی خوشبو1960میں لکھا۔ ان کے7افسانوی مجموے ہیں۔ سماج کے نچلے طبقے کے خوابوں کو پیش کرتی ہیں۔گجرات یونیورسٹی کی اسکالر شیخ حسینہ نے” مظہر الحق علوی کی ترجمہ نگاری کا جائزہ “ میں کہا کہ کلام پاک کا ترجمہ ضروری ہے عربی زبان سیکھنے کے باوجود مادری زبان میں ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ سے سید معین الدین نے ”مصطفی خان شیفتہ کی شاعری“ کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ ان کے مکان میں مشاعرے ہوا کرتے تھے مومن کی شاگردی اختیار کی۔ شیفتہ کے یہاں مومن کا رنگ جھلکتا ہے۔ معارف مجموعہ کلام ہے۔ شیفتہ نے نئے رنگ وآہنگ کی نشاندہی کی ہے۔دہلی یونیورسٹی کے محمد عبد القادر نے رضا لائبریری کے غیر مطبوعہ تذکروں کا جائزہ لیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے محمد ناصر حسین نے اردو شاعری کے اسالیب میں کلیم عاجز کی قدر کے عنوان سے مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ کلیم عاجز دبستان عظیم آباد کے غزل گو شاعر ہیں۔ انہیں ثانی میر بھی کہا گیا۔آخر میں فیروز عالم نے انتظار حسین کی ڈرامہ نگاری کا تنقیدی وفکری جائزہ کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاہد حبیب نے مقالہ نگاروں کی ستائش کی۔ ڈاکٹر عقیل احمد نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ریسرچ اسکالرز نے اچھے مقالے پیش کئے ہیں بعض نے مشکل موضوع پر مقالہ پیش کرکے حق ادا کیا۔ اگلا سیمینار 6 دسمبر2025کو ہوگا۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande