
جوہانسبرگ، 22 نومبر (ہ س):۔
جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ میں جاری جی 20 سربراہی اجلاس کے امریکہ کے مکمل بائیکاٹ کے باوجود، دیگر اہم رہنماو¿ں نے کامیابی کے ساتھ ایک حتمی اعلامیہ تیار کر لیا ہے۔ تاہم امریکہ نے اس کے بغیر ایسا کرنے کے فیصلے کو شرمناک قرار دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا افریقی براعظم کے پہلے جی 20 سربراہی اجلاس کو کثیرالجہتی سفارتی فتح کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم امریکہ کی عدم موجودگی نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔
تاہم، بعض سیاسی ذرائع کا خیال ہے کہ امریکہ کی عدم موجودگی دیگر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی اور ترقی پذیر ممالک کو امداد جیسے مسائل پر زیادہ کھلے اتفاق رائے تک پہنچنے کا موقع دے گی۔
ذرائع کے مطابق، جی 20 کے سفارت کاروں نے سربراہی اجلاس سے قبل رہنماو¿ں کے لیے ایک اعلامیہ تیار کر لیا ہے، جس میں ماحولیاتی تبدیلی ایک اہم ایجنڈا آئٹم ہے۔ ذرائع کے مطابق، اعلامیہ میں واضح طور پر امریکی مخالفت کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حال ہی میں موسمیاتی تبدیلی کو دھوکہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور برازیل میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (سی او پی30) میں اپنا وفد نہیں بھیجا تھا۔ انہوں نے واضح طور پر کانفرنس کے لیے جنوبی افریقہ کے ایجنڈے کو مسترد کر دیا، جس میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی آفات سے محفوظ رکھنے، صاف توانائی کی طرف منتقلی اور قرضوں کو کم کرنے میں مدد کرنا شامل تھا۔تاہم، رامافوسا نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ امریکہ کو خالی ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہتے۔
جی20 (گروپ آف ٹوئنٹی) 1999 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر، اسے صرف وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے گورنروں کی میٹنگ کے طور پر جانا جاتا تھا، لیکن 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد اسے سربراہی اجلاس کا درجہ دے دیا گیا۔ فی الحال، جی20 ممالک دنیا کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 85 فیصد، بین الاقوامی تجارت کا 75 فیصد، اور دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / عطاءاللہ