
بھوپال، 2 نومبر (ہ س)۔
مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، سنسکرتی پریشد، محکمۂ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ، دموہ کے ذریعے ’’سلسلہ اور تلاش جوہر‘‘کے تحت دموہ کے معروف شاعر نیر دموہی کومنسوب ادبی و شعری نشست کا انعقاد 2 نومبر ، 2025 کو اجمیری میرج گارڈن، دموہ میں ضلع کوآرڈینیٹر ادیب دموہی کے تعاون سے کیا گیا۔
دموہ میں منعقدہ سلسلہ اور تلاشِ جوہر کے لیے مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے اپنے پیغام میں کہا کہ دموہ کی سرزمین ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے۔ اسی سرزمین نے اردو دنیا کو نیر دموہی جیسے عالمی شہرت یافتہ شاعر عطا کیے جنہوں نے اپنی فکری گہرائی، عشقِ حقیقی، اور نعتیہ شاعری کے ذریعے اردو ادب کو ایک نئی روشنی بخشی۔
مدھیہ پردیش اردو اکادمی کو فخر ہے کہ وہ دموہ میں تلاشِ جوہر اور سلسلہ کے ذریعے یہاں کی تخلیقی روایت کو فروغ دے رہی ہے۔ اور ان پروگراموں کے ذریعے نئے لکھنے والوں کو موقع فراہم کر رہی ہے۔ آج کا یہ پروگرام نیر دموہی کی یاد اور ان کی تخلیقی وراثت کو خراجِ عقیدت ہے۔
دموہ ضلع کے کوآرڈینیٹر ادیب دموہی نے بتایا کہ ادبی و شعری نشست دو اجلاس پر مبنی تھی ۔ پہلے اجلاس میں دوپہر 12:00بجے تلاش جوہر منعقد ہوا جس میں ضلع کے نئےتخلیق کاروں نے فی البدیہہ مقابلے میں حصہ لیا۔ حکم صاحبان کے طور پر چھترپور کے سینئر شاعر عزیز رابی اور دموہ کے سینئر شاعر شاہد دموہی موجود تھے جنہوں نے نئے تخلیق کاروں کو شعر کہنے کے لیے دو طرحی مصرعے دیے۔ دیے گئے مصرعوں پر نئےتخلیق کاوں کے ذریعے کہی گئی غزلوں اور ان کی پیشکش کی بنیاد پر عرفان عثمانی نے پہلا، ساحل دموہی نے دوسرا، اور شہنشاہ رضا تنویر نے تیسرا مقام حاصل کیا۔پہلا، دوسرا، اور تیسرا مقام حاصل کرنے والے تینوں فاتحین کو اردو اکیڈمی کی طرف سے بالترتیب 3000/-، 2000/-، اور 1000/- روپے کی انعامی رقم اور سرٹیفکیٹ دیے جائیں گے۔
دوسرے اجلاس میں دوپہر 3:00 بجے سلسلہ کے تحت ادبی و شعری نشست کا انعقاد ہوا جس کی صدارت دموہ کے مشہور سماجی کارکن انوار الحق نے کی۔ اس موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر سماجی کارکن ارون ٹنڈن اور مہمانان ذی وقار کے طور پر سینئر صحافی اعظم خان، عزیز رابی اور خصوصی مقرر کے طور پر شاہد دموہی اسٹیج پر جلوہ افروز رہے ۔ اس اجلاس کی شروعات میں دموہ کے معروف استاد شاعر نیر دموہی کی حیات و خدمات پر شاہد دموہی نے روشنی ڈال کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
شاہد دموہی نے کہا کہ دموہ کا نام پوری اردو دنیا میں روشن کرنے والے عالمی شہرت یافتہ شاعر نير دموبی کی پیدائش 1 جولائی سن 1940 کو دموہ میں ہوئی۔آپ کے والد جناب نبی محمد عاقل کا شمار اس دور کے بڑے شعرا میں ہوتا تھا - یہی وجہ ہے کہ خدمت ادب اور شوق شاعری ان کی گھٹی میں شامل تھے ۔ ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1960 سے ہوا۔ وہ عمر جو اکثر بے فکری میں گزر جاتی ہے نیر صاحب نے اسے سپرد فکرو احساس کر دیا ۔ آپ کی شاعری کا بنیادی رجحان عشق حقیقی و تصوف اور مدح ہائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آپ کی شاعری آپ کے بے بہا جذبات کی عکاسی ہے جہاں الفاظ مقررہ بحر اور وزن میں ڈھل کر اپنے مکمل مفہوم پیش کرتے ہیں۔ آپ کا کلام خصوصا نعت و غزل و منقبت اور نظم و قطعات پر مشتمل ہے جو آپ کی شاعری کی فنی مہارت اور تخلیقی صلاحیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ کلام 1983 میں منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد 2002 میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے زیر اہتمام ان دوسرا مجموعہ کلام شعاع نیر کے نام سے منظر عام پر آیا جو آپ کی غزلوں کا مجموعہ ہے ۔ سن 2004 میں عقیدت کا چمن کے نام نعت و سلام کا مجموعہ شائع ہوا جس نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ سن 2009 میں درِ افکار کے نام سے مجموعہ شائع ہوا جس میں غزلیں، نظمیں اور گیت شامل ہیں۔ اس مجموعہ کلام کی اشاعت کی ذمہ داری ڈاکٹر اجئے لال آدھار شلا سنستھان دموه نے سنھالتے ہوئے نیر دموہی صاحب سے اپنی عقیدت و محبت کا ایک نایاب ثبوت پیش کیا - سن 2016 میں مجموعہ کلام تجلی منظر عام پر آیا جو نعت و سلام پر مشتمل تھا- سن 2017 میں آپ کا آخری مجموعہ کلام کيف و سرور' شائع ہوا۔
نیر دموہی کی شعری خدمات کے اعتراف میں انھیں مختلف تنظیموں نے اعزازات سے نوازا گیا جن میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا ندا فاضلی صوبائی اعزاز، سہا مجددی گولڈ میڈل اور صلح کل میڈل سٹیٹ بینک مہوبہ یوپی کا اعزاز قابل ذکر ہیں۔
شعری نشست میں جن شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ان کے نام اور اشعار درج ذیل ہیں :
آپ کا دل جب فقیری میں فنا ہو جائے گا
یہ زمانہ بس اُسی دن آپ کا ہو جائے گا
عزیز رابی
رشتے ناطوں کا نبھانا بھی پھر آساں ہوگا،
درد کا دل سے جو رشتہ سمجھ لیا جائے
ڈاکٹر پریم لتا نیلم
مرے جہان میں کچھ ایسے کچھ ایسے بھی منظر نکلے
کہ دل میں صحرا تو آنکھوں میں سمندر نکلے
مدھو لتا پاراشر
اتر گئی ہے مرے دل میں اک فقیر کی بات
لچکتی شاخ کے جیسا مزاج رکھّا کرو
شاہد دموہی
پھول کیسے خوشبوئیں اپنی لٹانا چھوڑ دیں
ڈالیاں پھولوں کی کیسے لہلہانا چھوڑ دیں
ڈاکٹر رفیق عالم
دیوانے ہیں دیوانے آخر یہ کہاں جاتے
دیوانوں کی محفل میں دیوانے نظر آئے
شکیل امجد
کھلا گیا مری امید کے گلستاں کو،
پلٹ کے دیکھنا اُس کا وہ جاتے جاتے ہوئے۔
ڈاکٹر ناظر خان
کسی کی دید کا ارمان دل میں ہے ’منظر‘
نہ جانے کب میری پوری یہ آرزو ہوگی
منظر دموہی
ہمیشہ لب پہ دعاؤں کا سلسلہ رکھنا
جہاں بھی جاؤ تو کردار پھول سا رکھنا
ڈاکٹر گنیش رائے
سمٹنے والے تھے ہم ایک دائرے میں کہاں
ہمیں تو خود ہی کئی دائرے بنانے پڑے
ادیب دموہی
منزل مقصود پانا ہے اگر،
’ساجد‘ اُن کی یاد میں کھو جائیے
منور رضا ’ساجد‘
آتے ہیں بہت یاد تیری زلف کے سائے،
جب دھوپ میں سایہ کوئی سر پر نہیں ہوتا
کلیم دانش
یقین کیسے دلاؤں کہ ہو یقین تمہیں
ازل سے رشتہ ہے میرا اسی زمین کے ساتھ
راجہ ساحل خان
تجھ پر میری حیات یہ احسان کم نہیں
تجھ کو نہ چاہ کر بھی جیے جا رہا ہوں میں
فیصل رضا
حقیقت یہ ہے چاہے لاکھ دولت ہو تجوری میں
پڑوسی بھوکا سو جائے تو پھر بیکار ہے دولت
شعیب دموہی
پروگرام کی نظامت کے فرائض ضلع کوآرڈینیٹر ادیب دموہی نےبحسن خوبی انجام دیے۔پروگرام کے آخر میں انھوں نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔
---------------
ہندوستان سماچار / انظر حسن