مصنوعی ذہانت کےلئے بین الاقوامی فورم کی تشکیل ضروری:چینی صدر شی جن پنگ
بیجنگ،02نومبر(ہ س)۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے مصنوعی ذہانت کے فوائد کو تمام دنیا تک پہنچانے اور اس سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ''اپیک'' کی سطح پر بین الاقوامی فورم کی تشکیل پر زور دیا ہے۔ان کی طرف سے یہ بات ہفتہ کے روز ''اپیک'' ک
مصنوعی ذہانت کےلئے بین الاقوامی فورم کی تشکیل ضروری:چینی صدر شی جن پنگ


بیجنگ،02نومبر(ہ س)۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے مصنوعی ذہانت کے فوائد کو تمام دنیا تک پہنچانے اور اس سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے 'اپیک' کی سطح پر بین الاقوامی فورم کی تشکیل پر زور دیا ہے۔ان کی طرف سے یہ بات ہفتہ کے روز 'اپیک' کے رہنماو¿ں کے جاری اجلاس میں سامنے آئی۔ جہاں انہوں نے چین کو مصنوعی ذہانت اور تجارتی تعاون کے پس منظر میں امریکہ کے متبادل کے طور ہر جگہ دینے کے لیے اس تجویز کو آگے بڑھایا۔چین کے صدر شی پنگ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں اور حکمت عملی کے حامی ہیں۔ جبکہ امریکہ نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کو ریگولیٹ کرنے کی تجاویز اور کوششوں کو مسترد کیا ہے۔

جبکہ چین کے صدر عالمی فورم کو مصنوعی ذہانت کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی کے طور پر تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ تاکہ 'اے آئی' کی موجودگی میں گورننس کے اصول متعین کیے جا سکیں اور 'اے آئی' کے استعمال کی حدود و قیود کے حوالے سے باہمی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔صدر شی کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو عالمی برادری کے لیے مفید بنایا جانا چاہیے۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے 'زینوا' کے مطابق صدر شی جن پنگ نے یہ بھی کہا مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ تاہم اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے لیے مفید بنایا جانا چاہیے۔ایک نئے عالمی فورم کی تشکیل کی تجویز دیتے ہوئے چینی رہنما کا کہنا تھا اس کا ممکنہ ہیڈکوارٹر چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوریا کے شہر گیونگجو میں 'اپیک' رہنماو¿ں کے اجلاس میں شرکت کیے بغیر ہی امریکہ واپس چلے گئے ہیں۔ البتہ روانگی سے پہلے انہوں نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی۔ یہ بات چیت تجارت و ٹیکنالوجی کے کنٹرول کے پس منظر میں تھی۔یاد رہے تجارتی امور اور ٹیکنالوجی سے متعلق ایشوز کی وجہ سے دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں باہمی تناو¿ سے گزر رہی ہیں۔صدر ٹرمپ کی 'اپیک' کے سربراہی اجلاس میں عدم شرکت کی وجہ سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر شی کو 'اپیک' رہنماو¿ں کے سامنے چین کے لیے جگہ بڑھانے کا موقع ملے گا اور چین کے لیے اپنے برینڈز اور بین الاقوامی سطح پر تجارت کے سلسلے میں راہ ہموار کرنے کا ایک ایکسکلوزیو موقع ہوگا۔ جبکہ کیلیفورنیا میں بنائی جانے والی جدید چپس مصنوعی ذہانت کی موجودہ ترقی اور عروج میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔

دوسری جانب چین میں قائم 'ڈیپ سیک' نامی ڈویلپر نے سستی چپس کی تیاری کے امکان کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ہماری خودمختاری کے ایلگورتھم کے منافی ہے۔چینی صدر نے 'اپیک' میں اس بات کو بھی زور دے کر پیش کیا ہے کہ گرین ٹیکنالوجیز کا آزادانہ پھیلاو¿ ضروری ہے اور دنیا کو سولر پینلز کی طرف لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یاد رہے چین سولر پینل کے سلسلے میں دنیا پر حاوی ہے۔'اپیک' کے ممبر ملکوں نے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ منظور کیا ہے۔ جن میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے متعلقہ چیلنجز انسانی آبادی کے لیے اہم ہیں۔ سربراہ اجلاس میں یہ بھی طے ہایا ہے کہ 'اپیک' کا اگلا سربراہی اجلاس 2026 میں چین میں ہوگا۔ اس سلسلے میں چین کے شہر شینزین کا انتخاب کیا گیا ہے جو روبوٹ بنانے کے لیے سب سے بڑا مرکز ہے۔ اسی شہر میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کی جاتی ہے۔ یہ شہر 1 کروڑ 80 لاکھ کی آبادی کا شہر ہے۔ اس سے پہلے یہ صرف مچھلیاں پکڑنے کا مرکز تھا۔ لیکن اب یہ چین کی ٹیکنالوجی میں ترقی کی علامت ہے۔ جسے 1980 میں ایک معاشی زون میں بدلا گیا تھا۔'اپیک' کے 21 ممالک رکن ہیں۔ یہ دنیا کی تقریباً آدھی تجارت کی نمائندگی کرنے والے ملکوں کا فورم ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande