حماس اور فلسطینی دھڑوں کوغزہ کی حکمرانی کےلئے ’عرب - اسلامی‘ ماڈل زیادہ قابل قبول
غزہ،17نومبر(ہ س)۔حماس تنظیم اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے سلامتی کونسل میں پیش کیے گئے اس امریکی مسودہ قرارداد کے خطرات سے خبردار کیا ہے جو غزہ کی پٹی میں ایک بین الاقوامی فورس کے قیام سے متعلق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد دراصل غزہ پر بین الاقوامی
حماس اور فلسطینی دھڑوں کوغزہ کی حکمرانی کےلئے ’عرب - اسلامی‘ ماڈل زیادہ قابل قبول


غزہ،17نومبر(ہ س)۔حماس تنظیم اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے سلامتی کونسل میں پیش کیے گئے اس امریکی مسودہ قرارداد کے خطرات سے خبردار کیا ہے جو غزہ کی پٹی میں ایک بین الاقوامی فورس کے قیام سے متعلق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد دراصل غزہ پر بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے، جبکہ ان کے مطابق غزہ کی انتظامی حکمرانی کے لیے پیش کیا گیا عرب - اسلامی ماڈل زیادہ قابلِ قبول ہے۔اس حوالے سے حماس نے اتوار کے روز جاری ایک یاد داشت میں کہا کہ مجوزہ شکل فلسطینی قومی فیصلوں پر بیرونی بالادستی قائم کرنے کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ اس لیے کہ یہ غزہ کی حکمرانی اور اس کی تعمیرِ نو کو ایک ایسی بین الاقوامی اتھارٹی کے سپرد کر دیتی ہے جسے وسیع اختیارات حاصل ہوں گے اور اس سے فلسطینی اپنے معاملات کی خود نگرانی کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔حماس تنظیم نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی انسانی امداد کا انتظام فلسطینی اداروں کے ذریعے ہونا چاہیے اور اس کی نگرانی اقوامِ متحدہ اور متعلقہ بین الاقوامی ادارے کریں۔حماس اور فلسطینی دھڑوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ انسانی امداد کو غیر ملکی انتظام کے تحت ایک دباو¿ اور بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے فلسطینی ادارے کمزور ہوں گے اور انروا کے کردار کو نقصان پہنچے گا۔حماس اور دیگر دھڑوں نے غزہ کے غیر مسلح کیے جانے یا فلسطینی عوام کے حقِ مزاحمت اور اپنے دفاع پر قدغن لگانے سے متعلق کسی بھی شق کو مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حق مسلم اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی بحث ایک داخلی فلسطینی معاملہ ہونا چاہیے۔یاد داشت میں مجوزہ بین الاقوامی فورس کے کردار پر بھی تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ یہ فورس عملی طور پر اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ حماس نے زور دیا کہ اگر کوئی بین الاقوامی فورس قائم کی بھی جائے تو اسے مکمل طور پر اقوامِ متحدہ کی براہِ راست نگرانی میں ہونا چاہیے۔ تنظیم کے مطابق اس کا کام صرف فلسطینی سرکاری اداروں کے ساتھ تعاون تک محدود رہنا چاہیے ... اس میں اسرائیل کی کوئی شمولیت، اختیار یا میدانی رابطہ شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس فورس کے اختیارات صرف شہریوں کے تحفظ اور امداد کی ترسیل یقینی بنانے تک محدود رہیں اور وہ کسی سکیورٹی اتھارٹی میں تبدیل نہ ہو۔مذکورہ یاد داشت میں تمام فلسطینی دھڑوں اور حماس تنظیم نے کسی بھی غیر ملکی سرپرستی، فوجی موجودگی یا غزہ میں بین الاقوامی اڈوں کے قیام کو واضح طور پر مسترد کیا اور اسے فلسطینی خود مختاری پر براہِ راست حملے کے مترادف قرار دیا۔فلسطینی دھڑوں نے عالمی نگرانی کے ایسے طریقہ کار کا مطالبہ کیا جو اسرائیل کو اس کی مسلسل خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرائے اور اسے شہریوں کی سلامتی اور غزہ کی آبادی کو درپیش بھوک کے بحران کی ذمہ داری قبول کرنے پر مجبور کرے، جو اسرائیلی کنٹرول کے باعث پیدا ہوا ہے۔آخر میں حماس اور فلسطینی دھڑوں نے دوبارہ کہا کہ غزہ کی حکمرانی کے لیے عرب - اسلامی ماڈل سب سے زیادہ قابلِ قبول متبادل ہے۔یاد رہے کہ امریکہ نے پیر کے روز سلامتی کونسل کے متعدد ارکان کو ایک مسودہ قرارداد بھیجا ہے جس کے مطابق غزہ میں کم از کم دو سال کے لیے ایک بین الاقوامی استحکام فورس قائم کی جائے۔اس حوالے سے امریکی رپورٹ کے مطابق اس تجویز میں یہ شامل ہے کہ استحکام فورس غزہ اور مصر کی سرحدوں پر سکیورٹی برقرار رکھے۔ یہ بات امریکی ویب سائٹ axios نے بتائی۔مزید انکشاف ہوا کہ یہ فورس روایتی امن فوج نہیں ہو گی بلکہ غزہ میں استحکام کے لیے معاون قوت ہو گی۔امریکی تجویز میں غزہ میں انسانی راہ داریوں کے تحفظ، فلسطینی پولیس کی تربیت اور حماس تنظیم کو غیر مسلح کرنے (اگر وہ رضاکارانہ طور پر ہتھیار نہ دے) جیسے نکات بھی شامل ہیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande