
دمشق،16نومبر(ہ س)۔شام کی سول سوسائٹی کے نمائندگان نے ہفتے کے روز دمشق میں یورپی یونین اور عبوری حکومت کے عہدیداروں کی موجودگی میں غیر معمولی آزادانہ بحث کی۔ انہوں نے حساس موضوعات بشمول فرقہ وارانہ کشیدگی، نسلی تقسیم اور مختلف فریقوں کے ہاتھوں ہلاک شدہ افراد کے بات میں گفتگو کی۔یورپی یونین کی یومِ مذاکرات کے نام سے معروف ملاقاتیں گذشتہ برسوں میں برسلز میں منعقد ہوتی رہی ہیں اور اب پہلی بار دمشق میں ہوئی ہیں۔ ہفتے کی ملاقاتیں شام میں الاسد خاندان کی 54 سالہ حکومت کی معزولی کے تقریباً ایک سال بعد ہوئیں جس کا گذشتہ دسمبر کے اوائل میں مسلح حزبِ اختلاف کی افواج نے خاتمہ کر دیا تھا۔اس وقت کے صدر بشار الاسد کی حکومت نے برسلز کانفرنسز کے فریم ورک کے اندر ہونے والی ملاقاتوں کا زیادہ تر بائیکاٹ کیا تھا۔ یورپی یونین نے کہا کہ ہفتے کے دن کی ملاقاتیں شامی سول سوسائٹی اور شامی عبوری حکام کے تعاون سے منعقد ہوئی تھیں۔
دمشق کے جنوبی مضافات میں ایک کانفرنس سینٹر میں منعقدہ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شام کے وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی نے کہا، شام کے بارے میں بات کرنے کے لیے جو اجلاس ہوا کرتا تھا، وہ اب شام میں ہو رہا ہے۔الشیبانی نے مزید کہا، ہفتہ کی ملاقاتیں سول سوسائٹی اور یورپی یونین میں ہمارے شراکت داروں کے ساتھ ایک ٹھوس شراکت داری کی نمائندگی کرتی ہیں۔شام میں یورپی یونین کے وفد کے چارج ڈی افیئرز مائیکل اوہنماچ نے کہا کہ شام کے مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے 500 افراد نے اجلاسوں میں حصہ لیا اور یہ بہت مثبت چیز ہے۔انہوں نے کہا، ہم شام کے مستقبل کے لیے یہی امید کرتے ہیں کہ یہ جامع ریاست دیکھیں جو اپنے تمام شہریوں کی شکل میں ایک ریاست ہو گی۔
اگرچہ شام میں گذشتہ ایک سال کے دوران تبدیلیاں آئی ہیں لیکن ان کے باوجود مارچ میں ملک کے ساحلی علاقے اور جولائی میں جنوبی صوبہ السویدائ میں حکومت کے حامی مسلح افراد اور ملک کی دروز اور علوی اقلیتوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد ہوا جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔تشدد کی ایسی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کو 14 سالہ خانہ جنگی کے بعد بھی بدستور بڑے بحرانوں کا سامنا ہے۔ اس میں نصف ملین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔وزیر برائے سماجی امور ہند قبوات نے کہا، آج کی گفتگو تبدیلی کا آغاز ہے اور شام کی تعمیرِ نو صرف ایسی شراکت داری سے ہو سکتی ہے جو ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان احترام کی بنیاد پر ہو۔عبوری انصاف اور لاپتہ افراد کے انجام سے متعلق ایک سیشن میں شامیوں نے ہنوز زیرِ التوائ مسائل پر جوابات کا مطالبہ کیا مثلاً 130,000 سے زیادہ ایسے لوگ جو الاسد کی حکومت میں لاپتہ ہو گئے تھے جبکہ ایک نسلی کرد نے ریاستی امتیاز کے بارے میں بات کی جس کا انہیں عشروں سے سامنا ہے۔ ایک اور نے اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والی بعض خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں بات کی۔ملاقات میں شریک ایک شامی وکیل اور ملک کے ایک ممتاز ترین کارکن کو برسوں پہلے شام میں بار بار جیل بھیجا گیا، پھر انہوں نے جلاوطنی اختیار کر لی۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی الاسد خاندان کی حکمرانی کے خاتمے پر افسوس نہیں ہے۔ نیز کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شام کا مستقبل روشن اور شاندار ہو گا۔درویش نے کہا، آج شام میں ہمارے پاس ایک موقع ہے اور ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan