حتمی این آرسی کے چھ سال بعد بھی جاری نہیں کئے گئے شناختی کارڈ، موجودہ ریاستی سرکار سیاسی فائدہ کے لئے شہریت کے مسئلہ کو بدستورزندہ رکھنا چاہتی ہے: مولانا ارشدمدنی
جمعیةعلماءہند آمسوکی عرضی پر مرکز، حکومت آسام اورنیشنل رجسٹرارآف سیٹیزن رجسٹریشن کو سپریم کورٹ کا نوٹس جاری نئی دہلی،10 نومبر(ہ س)۔ آسام میں این آرسی کے حتمی نفاذکو لیکر سپریم کورٹ میں جمعیةعلماءہند آمسوکی جانب سے وکیل آن ریکارڈفضیل احمد ایوبی کی د
موجودہ ریاستی سرکار سیاسی فائدہ کے لئے شہریت کے مسئلہ کو بدستورزندہ رکھنا چاہتی ہے: مولانا ارشدمدنی


جمعیةعلماءہند آمسوکی عرضی پر مرکز، حکومت آسام اورنیشنل رجسٹرارآف سیٹیزن رجسٹریشن کو سپریم کورٹ کا نوٹس جاری نئی دہلی،10 نومبر(ہ س)۔ آسام میں این آرسی کے حتمی نفاذکو لیکر سپریم کورٹ میں جمعیةعلماءہند آمسوکی جانب سے وکیل آن ریکارڈفضیل احمد ایوبی کی داخل کردہ ایک اہم پٹیشن پر آج دورکنی بینچ جسٹس ایس ایم نرسمہا،جسٹس اتل چندوڑکرسامنے سماعت ہوئی، عدالت نے پہلے تو اس کے لئے گواہاٹی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا لیکن جب جمعیةعلماءہند کے وکلاءنے عدالت کو مطلع کیا کہ اس معاملہ کی سپریم کورٹ میں ہی سماعت ہوچکی ہے اوراس کے فریقین میں مرکزی حکومت اورنیشنل رجسٹراڈ آف سٹیزن رجسٹریشن شامل ہیں توعدالت عرضی پر سماعت کے لئے تیارہوگئی،جس کے بعد سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اورایڈوکیٹ اندراجے سنگھ نے مو¿ثربحث کی اورعدالت کو یہ بتایا کہ حتمی این آرسی کے چھ سال بعد بھی لوگوں کو اب تک شناختی کارڈ جاری نہیں کئے گئے ہیں، اس پر عدالت نے حیرت کا اظہارکیا اورمرکز، حکومت آسام اورنیشنل رجسٹراڈ آف سٹیزن رجسٹریشن کو نوٹس جاری کرکیا،قابل ذکر ہے کہ آسام این آر سی کو 2013 سے 2019 تک سپریم کورٹ کی براہِ راست نگرانی میں مکمل کیا گیا۔ رجسٹراڈ جنرل آف انڈیا اور ریاستی کوآرڈینیٹر کی جانب سے مشترکہ طور پر شائع شدہ حتمی این آر سی برسوں کی باریک بینی سے معلومات کی موازنہ کی بنیاد پر کی گئی 3.3 کروڑ درخواستوں کی جانچ پڑتال کا نتیجہ ہے۔ اس کا مقصد آسام میں شہریت کے دہائیوں پرانے مسئلے کا قانونی اور حتمی حل فراہم کرنا تھا۔تاہم، حتمی این آر سی کے شائع ہونے کے چھ سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود، حکام اب تک قانون کے تحت لازمی اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی تین کروڑ گیارہ لاکھ مستحق شہریوں کو نیشنل شناختی کارڈز جاری کرنا، جیسا کہ شہریت (شہریوں کا اندراج اور نیشنل آئیڈنٹیٹی کارڈز کا اجرا) قواعد، 2003 کے قاعدہ 13 کے تحت لازم ہے اورمسترد شدہ افراد (تقریباً 19 لاکھ) کو ریجیکشن سلپس جاری کرنا اور اپیل کا آغاز کرنا،جیسا کہ قاعدہ 4A کے شیڈول کے پیرا 8 میں درج ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکام کی یہ ناکامی این آر سی کے اس پورے عمل کو نامکمل، غیرآئینی، من مانا اور آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کی خلاف ورزی بناتی ہے، حتمی این آر سی کی اشاعت کے بعد اسے معطل چھوڑ دینا ایک بڑی آبادی کوغیر یقینی شہریوں کی حیثیت میں مبتلا کر رہا ہے، جس سے خوف، بداعتمادی اور سماجی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔درخواست میں اس بات پربھی زور دیا گیا ہے کہ آسام این آر سی ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی اور ثبوت سے تصدیق شدہ عمل ہے، جو سپریم کورٹ کی براہِ راست نگرانی میں انجام پایاہے۔ عوامی اعتماد، عدالتی وقت اور 1600 کروڑ روپے سے زائد قومی وسائل صرف کئے جانے کے بعد، یہ ضروری ہے کہ اس عمل کو شہریت ایکٹ 1955 اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد کے مطابق مکمل کیا جائے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ حتمی این آر سی میں شامل تمام افراد کو فوراً نیشنل شناختی کارڈز جاری کئے جائیں اورجن افراد کو این آر سی سے خارج کیا گیا ہے، ان کے لیے ریجیکشن سلپس/آرڈرز جاری کئے جائیں اور اپیل کا عمل شروع کیا جائے تاکہ غیر ملکی ٹربیونلزکے سامنے قانونی فیصلے ممکن ہو سکیں۔

جمعیةعلماءہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت کو امید افزاقراردیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اس حساس مسئلہ کو لیکر آسام میں فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو غیر ملکی قراردیکر اکثریت کی نگاہ میں ان کی حیثیت کو مشکوک بناتی رہی ہیں جس کی وجہ وہاں سماجی سطح پر ہمیشہ فرقہ وارانہ کشیدگی پائی جاتی رہی ہے، پنچائیت سرٹیفکیٹ کو تبدیل کرنے کا معاملہ ہو، شہریت کے لئے حتمی تاریخ کے تعین کامعاملہ ہویا پھر ریاست میں مدارس کو بند کرنے کی سازش جمعیةعلماءہند ہر ایسے موقع پر مظلوموں کے ساتھ پوری طاقت سے کھڑی رہی اوران کے مقدمات کامیابی کے ساتھ لڑتی آئی ہے، مولانا مدنی نے مزید کہا کہ وہاں کی موجودہ ریاستی حکومت امتیاز اورنفرت کی سیاست اورمسلم مخالف ایجنڈے پر عمل پیراہے اورسیاسی فائدہ کے لئے وہ شہریت کے مسئلہ کو بدستورزندہ رکھنا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حتمی این آرسی کے بعد بھی لوگوں کو شناختی کارڈجاری کرنے میں دانستہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے، انہوں نے آگے کہا کہ آسام میں این آر سی کے عمل کو قانون کے مطابق مکمل کرنا ریاست میں امن اور ہم آہنگی کی بحالی کے لئے نہایت ضروری ہے اور یہ مساوات، اخوت اور قانون کی حکمرانی جیسے آئینی اصولوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔واضح رہے کہ صدرجمعیةعلماءہند مولانا ارشدمدنی کی رہنمائی اورسرپرستی میں مولانا مشتاق عنفرصدرجمعیةعلماءآسام، این آرسی اورپنچائیت سرٹیفکیٹ 6Aجیسے اہم مقدمات 14سال سے لڑتی رہی اورکامیابی بھی ملی کیونکہ آسام کا مسئلہ ایک حساس مسئلہ تھا اگر فرقہ پرست عناصراپنے مقصدمیں کامیاب ہوجاتے توایک اندازہ کے مطابق لاکھوں مسلمانوں کے شہریت کو خطرہ لاحق ہوسکتاتھا، آج سپریم کورٹ میں مولانا مشتاق عنفرصدرجمعیةعلماءآسام، مولانا کلیم الدین اور آمسوکے صدرموجودرہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande