تہران،20اکتوبر(ہ س)۔ایران نے اپنے جوہری پروگرام سے متعلق حالیہ کشیدگی کے باوجود تصدیق کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس کے بالواسطہ مذاکرات مکمل طور پر بند نہیں ہوئے۔ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پیر کے روز اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں کہا کہ تہران اور واشنگٹن کسی نئے مذاکراتی مرحلے کی دہلیر پر نہیں ہیں۔ تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’بالواسطہ بات چیت رکی نہیں، بلکہ ایران کے مفادات سے مشروط ہے‘۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایران اور دیگر فریقوں کے درمیان بالواسطہ رابطے پہلے کی طرح جاری ہیں، اور ثالثوں کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔‘بقائی نے کہا کہ ایران کا جوہری معاملہ درحقیقت کوئی عالمی تنازع نہیں، بلکہ اسے یورپی ممالک (فرانس، جرمنی، برطانیہ) اور امریکہ کے اصرار پر اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ ایرانیوں کو پ±ر امن جوہری توانائی کے استعمال کا بنیادی حق حاصل ہے۔ یہ حق ایران کی جوہری اسلحے کے عدم پھیلاو¿ کے معاہدے (NPT) کی رکنیت کے سبب حاصل ہے۔ یہ کوئی ایسا امتیاز نہیں جو دوسروں کی طرف سے دیا یا تسلیم کیا جائے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہفتہ قبل کہا تھا کہ اگر تہران مذاکرات پر آمادہ ہو تو وہ ایران پر عائد پابندیاں اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے اعتماد ظاہر کیا تھا کہ آخرکار ایران کے ساتھ ایک معاہدہ طے پا جائے گا کیونکہ ایرانی قیادت خود بھی اس کی خواہش رکھتی ہے۔تاہم ایران نے اس پیشکش کو امریکی حکومت کے جارحانہ رویے سے متضاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، اور یاد دلایا کہ جون میں امریکی ڈرون حملوں نے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔کئی مغربی ممالک ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے ہیں، جسے تہران مسلسل مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف سول مقاصد کے لیے ہے۔گزشتہ اگست میں یورپی ٹرائیکا (فرانس، جرمنی اور برطانیہ) نے ٹِرِگر میکانزم فعال کرنے اور ایران پر دوبارہ اقوامِ متحدہ کی پابندیاں عائد کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔
ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہونے والی بات چیت بھی کسی سمجھوتے پر منتج نہ ہو سکی۔ ادھر ایرانی حکام نے الزام لگایا کہ امریکہ نے یورپی فریقوں کو ہمارے کسی بھی تجویز کردہ حل کو قبول کرنے سے روک دیا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan