غزہ میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی،نیتن یاہو کا انتباہ
تل ابیب،19اکتوبر( ہ س)۔غزہ معاہدے کے پہلے مرحلے کی شقیں تاحال نافذ العمل ہیں۔ ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ہفتے کے روز خبردار کیا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ ا±س وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کا دوسرا مرحل
غزہ میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی،نیتن یاہو کا انتباہ


تل ابیب،19اکتوبر( ہ س)۔غزہ معاہدے کے پہلے مرحلے کی شقیں تاحال نافذ العمل ہیں۔ ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ہفتے کے روز خبردار کیا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ ا±س وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کا دوسرا مرحلہ جس میں تحریک کو غیر مسلح کرنا شامل ہے مکمل طور پر نافذ نہیں ہو جاتا۔نیتن یاہو نے گذشتہ شب ہفتے کے روز دائیں بازو کے نمائندہ چینل 14 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوسرا مرحلہ حماس کے غیر مسلح کیے جانے پر مشتمل ہے، یا زیادہ درست الفاظ میں کہیں تو، حماس کو اسلحے سے محروم کرنے کے بعد غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنا اس مرحلے کا حصہ ہے۔انہوں نے مزید کہا جب یہ مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو جائے گا اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ آسان طریقے سے ہو، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو مشکل راستہ اختیار کیا جائے گا تب جا کر جنگ ختم ہو گی۔اس کے علاوہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے انٹرویو کے دوران اعلان کیا کہ وہ 2026 کے پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے۔جب ا±ن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ جیت کی توقع رکھتے ہیں، تو نیتن یاہو نے جواب دیا: ہاں۔

اسرائیل کے آخری عام انتخابات جو 2022 میں منعقد ہوئے،اس میں دائیں بازو کی جماعت لیکود نیتن یاہو کی قیادت میں کامیاب ہوئی۔ نیتن یاہو جو آئندہ ہفتے 76 برس کے ہو جائیں گے، اس نے 32 نشستیں حاصل کیں، جبکہ اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) کی کل 120 نشستوں میں سے 64 ارکان نے انہیں حکومت بنانے کے لیے نامزد کیا۔

نیتن یاہو نے اسی سال دسمبر میں وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا اور تب سے ایک انتہائی دائیں بازو کے اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی اسرائیل کے وزیرِاعظم رہ چکے ہیں ، پہلی بار 1996 سے 1999 تک، اور دوسری بار 2009 سے 2021 تک اس عہدے پر فائز رہے، جب جون 2021 میں یائیر لاپید اور نفتالی بینیٹ کے قائم کردہ ایک اعتدال پسند اتحاد نے انہیں اقتدار سے ہٹا دیا۔تاہم اپنی موجودہ مدتِ حکومت جو 2022 کے آخر میں شروع ہوئی، کے دوران نیتن یاہو نے وسیع پیمانے پر عدالتی اصلاحات متعارف کروائیں، جن پر ان کے مخالفین نے سخت تنقید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش ہیں۔ان اصلاحاتی منصوبوں نے بڑے پیمانے پر احتجاجات کو بھی جنم دیا، جو صرف اس وقت تھمے جب غزہ کی جنگ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی۔اسی طرح نیتن یاہو کو اسرائیل کے اندر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر جنگ کے انتظامی طریقہ کار اور غزہ کی پٹی میں قید اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے معاملے اور ان کے طرزِ عمل کے حوالے سے۔

انہیں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، کیونکہ ا±ن پر غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے احکامات جاری کرنے کے شبہات ہیں۔یہ قابلِ ذکر ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ جو کئی روز تک اسرائیل اور حماس کے درمیان شرم الشیخ میں ہونے والی بالواسطہ مذاکرات کا نتیجہ تھاجو امریکی، مصری اور قطری سرپرستی میں طے پایا، جبکہ ترکی نے بھی اس میں حصہ لیا۔یہ معاہدہ رواں ماہ 10 اکتوبر کو نافذ العمل ہوا، جس میں طے پایا کہ تمام زندہ اسرائیلی قیدیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے گا اور ہلاک شدگان کی لاشیں واپس کی جائیں گی، جب کہ اس کے بدلے میں اسرائیل سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں سخت اور عمر قید کی سزاو¿ں والے متعدد قیدی بھی شامل ہیں۔معاہدے میں یہ شق بھی شامل تھی کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے جزوی انخلا کرے گا، طے شدہ سرحدوں تک پیچھے ہٹے گا، غزہ میں امدادی ٹرکوں کے داخلے کی اجازت دے گا، اور سرحدی گزرگاہیں کھولے گا۔تاہم اسرائیل نے اب تک مصر کے ساتھ رفح سرحدی گزرگاہ کھولنے سے انکار کیا ہے اور شرط رکھی ہے کہ تمام اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں اسے حوالے کی جائیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حماس ہفتے کی شام تک 12 لاشیں حوالے کر چکی ہے، جبکہ باقی 16 لاپتہ قیدیوں کی تلاش غزہ کے تباہ شدہ علاقے میں جاری ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande