ممبئی
، 19 اکتوبر(ہ س)۔
راشٹریہ
سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ ہندوستان کی قدیم
تہذیب کا بنیادی مقصد علم کا اشتراک تھا، نہ کہ فتوحات۔ انہوں نے کہا کہ قدیم
ہندوستانی اپنے علمی اور روحانی ذخیرے کے ساتھ میکسیکو سے لے کر سائبیریا تک گئے،
لیکن کبھی کسی پر غلبہ حاصل کرنے یا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش نہیں کی۔
اتوار
کو ممبئی میں آریہ یوگ وشئے کوش انسائیکلوپیڈیا کے اجرا کے موقع پر
خطاب کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ ہمارے اجداد نے ہمیشہ خیر سگالی اور انسانی اتحاد
کے پیغام کے ساتھ دنیا کو متاثر کیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی حملہ آوروں نے اگرچہ
دولت لوٹی، مگر سب سے بڑا نقصان ان نوآبادیاتی قوتوں نے کیا جنہوں نے
ہندوستانی ذہنوں کو لوٹ لیا اور فکری غلامی مسلط کی۔
انہوں
نے مکالے نالج سسٹم کو ہندوستانی فکری زوال کی بڑی وجہ قرار دیا، جس
نے مقامی تعلیمی ڈھانچے اور خود اعتمادی کو کمزور کر دیا۔ ان کے مطابق اب ہندوستان
کو اپنی علمی روایتوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور نوآبادیاتی اثر سے نجات پانے کی
ضرورت ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی ترقیات سے انکار نہیں بلکہ سمجھداری
سے ان کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔
بھاگوت
نے اپنے خطاب میں سائنس اور روحانیت کے تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسانی
ادراک محدود ہے اور مطلق سچائی تک پہنچنے کے لیے ذہن اور جسم کی حدوں سے آگے جانا
ضروری ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ انسان سات رنگ دیکھتا ہے، کتے دو اور مرغیاں تین —
جو یہ بتاتا ہے کہ حقیقت کا ادراک ہر مخلوق کے لیے مختلف ہے۔
اس موقع
پر آریہ یوگ وشئے کوش انسائیکلوپیڈیا کی پہلی جلد کی نقاب کشائی کی گئی۔
یہ انسائیکلوپیڈیا احمد آباد کے گیتارتھ گنگا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے تیار کیا ہے، جس
پر تیس سال سے زائد تحقیق کی گئی۔ اس منصوبے میں 108 بڑے موضوعات اور 15 ہزار ذیلی
عنوانات شامل کیے جائیں گے، جنہیں تیس جلدوں میں شائع کیا جائے گا۔
اختتام
پر بھاگوت نے کہا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر ہے اور ایسے وقت میں ہندوستان کو اپنی
روحانی اور سائنسی جڑوں سے جڑ کر دنیا کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ
علم کا مقصد تسلط نہیں بلکہ فلاحِ انسانیت ہے
ہندوستھان
سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / جاوید این اے