غزہ،17اکتوبر(ہ س)۔
آج اسرائیل میں ایک بین الاقوامی میکانزم (یعنی رابطہ و نگرانی کا نظام) اپنے کام کا آغاز کرے گا۔ اس کا مقصد غزہ کی پٹی سے قیدیوں کی لاشیں واپس لانے کے عمل میں ہم آہنگی، جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی اور انسانی امداد کی ترسیل کو منظم بنانا ہے۔اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکا کی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے تقریباً 200 فوجی اسرائیل پہنچ چکے ہیں جو ایک امریکی جنرل کی نگرانی میں کام کریں گے۔ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے یاکی دولف کو رابطہ کاری کے سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا نے بتایا ہے کہ یہ میکانزم یا مرکز کسی فوجی اڈے پر قائم نہیں کیا جائے گا بلکہ جنوبی اسرائیل میں واقع ہو گا۔دو روز قبل بدھ کو دو اعلیٰ امریکی مشیروں نے کہا تھا کہ غزہ کی پٹی میں امن و استحکام کے قیام کے لیے ایک بین الاقوامی فورس بھیجنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی گئی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے اہم تقاضوں میں سے ایک، غزہ میں استحکام پیدا کرنے کے لیے امریکا کی حمایت یافتہ بین الاقوامی فورس کا قیام ہے۔ واشنگٹن نے اس فورس کی مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ 200 فوجی بھیجنے پر اتفاق کیا ہے، تاہم یہ فوجی خود غزہ میں تعینات نہیں ہوں گے۔ان دونوں مشیروں نے صحافیوں کو آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی افواج اور حماس کے جنگجوو ¿ں کے درمیان کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔
ان میں سے ایک مشیر نے کہا فی الحال ہمارا ہدف یہ ہے کہ کم از کم بنیادی سطح پر حالات کو مستحکم کیا جائے۔ بین الاقوامی استحکام فورس کی تشکیل شروع ہو چکی ہے۔اسی مشیر کے مطابق امریکہ ... انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر اور آذربائیجان سمیت متعدد ممالک سے بات چیت کر رہا ہے تاکہ وہ اس فورس میں شرکت کریں۔ یہ بات خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتائی۔دونوں مشیروں نے مزید کہا کہ اس وقت علاقے میں تقریباً 24 امریکی فوجی موجود ہیں جو آپریشن کی تیاری میں مدد کر رہے ہیں، اور ان کا کردار رابطہ کاری اور نگرانی کا ہو گا۔ان میں سے ایک نے وضاحت کی کہ ہدف یہ ہے کہ تمام مقامی شراکت داروں کو شامل کیا جائے جو مدد اور تعاون کے خواہش مند ہیں۔ دوسرے مشیر نے کہا کہ کسی کو بھی زبردستی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ حکام ان علاقوں کی تعمیرِ نو پر غور کر رہے ہیں جو حماس کے جنگجوو ¿ں سے خالی ہو چکے ہیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan