شہناز کنول کے ناولوں اور افسانوں میں مشرقی تہذیب کی خوشبو نمایاں ہے:ڈاکٹر عبید اقبال عاصم
علی گڑھ، 15 اکتوبر (ہ س)۔
اردو کی ممتاز قلم کار اور ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والی، دورِ حاضر کی نمایاں شاعرہ و نثر نگار محترمہ شہناز کنول کا78 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔شہناز کنول علی گڑھ کے مشہور علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ معروف روزنامہ جمہوریت ممبئی کے مدیر مولانا حامد الانصاری غازی کی صاحبزادی اور اردو کے معروف ماہنامہ گگن بمبئی کے مدیر شمس کنول کی شریک حیات تھیں۔شہناز کنول کے چار ناول شائع ہوچکے ہیں، جبکہ ان کی کئی کہانیاں مختلف رسائل و جرائد میں طبع ہوچکی ہیں۔ان کے دو ناول ’سفرِ رواں‘ اور’رودادِ زندگی‘ اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کی پیدائش 9جنوری 1947 کو یوپی میں ہوئی۔ بعد ازاں وہ ممبئی میں سکونت پذیر ہوئیں۔ تعلیم کے دوران ہی انہوں نے ادبی سفر کا آغاز کیا اور جلد ہی اپنی انفرادیت، مشرقی زبان و تہذیب سے گہرے تعلق، اور سادہ مگر اثر انگیز اسلوب کی بدولت شہرت حاصل کی۔ان کی ادبی تخلیقات میں عورت کی داخلی کائنات، خاندانی اقدار، اور مشرقی تہذیب کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔وہ ایک مشفق، نیک نفس اور باوقار خاتون تھیں جنہوں نے دینی اور اخلاقی اقدار کی ہمیشہ پاسداری کی۔شہناز کنول کی رحلت سے اردو ادب اور علی گڑھ کے علمی حلقوں میں گہرا غم پایا جا رہا ہے۔پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہناز کنول ایک ممتاز ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ خاندانی شرافت، مشرقی روایات، اور دینی اقدار کی جیتی جاگتی مثال تھیں۔
شہناز کنول14/کتوبر 2025 کی شام پانچ بجے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحومہ قاسمی خانوادے سے تعلق رکھنے والی نہایت سنجیدہ، مذہبی روایات کی پابند، اور دینی شعور رکھنے والی نیک سیرت خاتون تھیں۔ انہوں نے ادب اور اخلاق دونوں میدانوں میں اپنی انفرادیت قائم رکھی۔ ان کی شخصیت میں جہاں ایک سنجیدہ مصنفہ کی متانت پائی جاتی تھی، وہیں ایک دیندار خاتون کا وقار بھی نمایاں تھا۔مرحومہ گزشتہ دس دنوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں زیرِ علاج تھیں، جہاں انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔ ان دنوں کے دوران ان کی دیکھ بھال نہایت خلوص اور توجہ کے ساتھ ان سے نسبت رکھنے والی سلمیٰ عابد اور ان کے شوہر عابد علی نے کی۔سلمیٰ عابد اور ان نے شوہر عابد علی نے ان کی بیماری کے دوران جس خلوص، محبت اور ایثار کے ساتھ خدمت انجام دی، وہ واقعی قابلِ تحسین ہے۔ دن رات کی تیمارداری، دعاؤں، حوصلہ افزائی اور صبر و استقامت کے ساتھ انہوں نے مرحومہ کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اہلِ خانہ اور قریبی احباب سب اس بات کے گواہ ہیں کہ سلمیٰ اور عابد نے جس طرح مرحومہ کا خیال رکھا، وہ خدمت کی اعلیٰ مثال ہے جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ لیکن وقتِ موعود آ پہنچا اور ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔مرحومہ کی نمازِ جنازہ مولانا محمد سفیان قاسمی، مہتمم دارالعلوم وقف دیوبندنے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ متعدد اساتذہ، محققین، اہلِ ادب اور ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔مرحومہ کے حقیقی بھائی سلمان منصور سے اظہارِ تعزیت کرنے والوں میں یہ نمایاں نام شامل ہیں:پروفیسر کفیل احمد قاسمی،پروفیسر سعود عالم قاسمی،پروفیسر راحت ابرار،پروفیسر ابو سفیان اصلاحی،مولانا اشہد جمال ندوی اورڈاکٹر عبید اقبال عاصم،سیکریٹری آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے علاوہ علی گڑھ و ملک کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے ادیب، شعرا اور دانشور حضرات کی بڑی تعداد شامل تھی
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ