اسلامیات میں مصنوعی ذہانت کی شمولیت ایک فکری انقلاب کی ابتدا ہے: پروفیسر عبدالحمید فاضلی
علی گڑھ, 15 اکتوبر (ہ س)۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام’مصنوعی ذہانت اور علومِ اسلامی: تحقیق کے نئے طریقے‘کے موضوع پر ایک خصوصی گیسٹ لکچر منعقد ہوا جو علمی و فکری لحاظ سے نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔پروگرام کا انعقاد معروف پروفیسر ا
اسلامک شعبہ میں پروگرام


علی گڑھ, 15 اکتوبر (ہ س)۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام’مصنوعی ذہانت اور علومِ اسلامی: تحقیق کے نئے طریقے‘کے موضوع پر ایک خصوصی گیسٹ لکچر منعقد ہوا جو علمی و فکری لحاظ سے نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔پروگرام کا انعقاد معروف پروفیسر این۔ اکمل ایوبی کانفرنس ہال میں کیا گیا۔ اے۔ کے طالب علم محمد عمران کی پُراثر تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر امتیاز الہدی،اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ ئ اسلامک اسٹدیز نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیے۔نشست کی صدارت چیئرمین شعبہ پروفیسر عبدالحمید فاضلی نے کی، جبکہ پروفیسر عبدالمجید خان،ڈائریکٹر، اکیڈمکس اینڈ ریسرچ اسٹڈیز مہمانِ خصوصی تھے۔

ڈاکٹر معراج یو سید کا علمی و فکری خطاب: امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، ڈیوس سے تشریف لائے ممتاز محقق ڈاکٹر معراج یو سید،ڈائریکٹر، مڈل ایسٹ/ساؤتھ ایشیا اسٹڈیز اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف مذہبی مطالعات نے اپنے خطاب میں مصنوعی ذہانت اور اسلامیات کے باہمی رشتے پر نہایت بصیرت افروز گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی خصوصاً لارج لینگویج ماڈلز نے اسلامی علوم و افکار کے روایتی تحقیقی طریقوں میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ڈاکٹر معراج یو سید کے مطابق مصنوعی ذہانت جہاں تحقیق کے نئے در وا کر رہی ہے، وہیں اس کے استعمال میں فکری احتیاط، اخلاقی رہنمائی اور علمی دیانت نہایت ضروری ہیں۔اگر ہم مصنوعی ذہانت کو صرف ایک سائنسی آلہ سمجھیں گے تو اس کے فوائد عارضی ہوں گے لیکن اگر ہم اسے اخلاقی شعور اور علمی دیانت کے ساتھ جوڑیں تو یہ فکری احیا کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

اس موقع پر مہمانِ خصوصی پروفیسر عبدالمجید خان نے اپنے خطاب میں مغربی سائنسی ترقی کے بعض پہلوؤں پر تنقیدی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر علم و سائنس روحانی شعور سے خالی ہو جائے تو انسان اپنی فطری وابستگی خدا سے کھو دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اپنی فکری و روحانی روایت کے ذریعے ایک انسانیت نواز عالمی فکر کو فروغ دے تاکہ علم اور اخلاق میں توازن قائم رہے۔

صدرِ اجلاس پروفیسر عبدالحمید فاضلی نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا کہ اسلامیات کے علمی دائرے میں مصنوعی ذہانت کی شمولیت محض ایک تکنیکی تجربہ نہیں، بلکہ ایک فکری انقلاب کی شروعات ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ:آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی کو اپنے فکری ورثے کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔

مصنوعی ذہانت کو علمِ وحی کے تابع رکھنا ہی اس کے درست اور بامقصد استعمال کی ضمانت ہے۔یہ صرف تحقیق کا آلہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی امانت ہے، جسے فہمِ قرآن و سنت کے ساتھ جوڑنا ناگزیر ہے۔پروفیسر فاضلی نے اپنے خطاب کے دوران ایک بصیرت افروز ویڈیو بھی پیش کی،

پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر اعجاز احمد اور ڈاکٹر بلال احمدکٹّی نے پروفیسر عبدالحمید فاضلی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کے لیکچر وقت کی اہم ضرورت ہیں، کیونکہ موجودہ سائنسی و تکنیکی دور میں ایسے موضوعات طلبہ کے فکری افق کو وسعت دیتے ہیں۔ اس پروگرام میں اساتذہ، طلبہ، محققین اور دانشوروں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔شرکائے اجلاس نے اس اہم اور وقت کی ضرورت پر مبنی علمی نشست کے انعقاد پر پروفیسر عبدالحمید فاضلی کو مبارکباد پیش کی۔انہوں نے کہا کہ اس پروگرام نے نہ صرف اسلامی علوم میں ٹیکنالوجی کے امکانات کو واضح کیا بلکہ فکری تحقیق کے ایک نئے دور کی بنیاد بھی رکھی ہے۔

شرکاء نے پروفیسر فاضلی کے علمی وژن، فکری گہرائی اور عصری شعور کی تعریف کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ شعبہئ اسلامیات آئندہ بھی ایسے بامقصد اور بصیرت افروز پروگرام منعقد کرتا رہے گا۔

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande