علی گڑھ, 15 اکتوبر (ہ س)۔ ہجرت کا مفہوم صرف ایک جغرافیائی تبدیلی نہیں، بلکہ یہ ایمان، برداشت، اور اخلاقی اقدار کی طرف ایک شعوری پیش قدمی ہے ان خیالا ت کا اظہار معروف عالم دین مولانا جمیل احمد قاسمی نے کیا وہ آج ”ہجرت “ پر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔انھوں نے مزید کہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی ہجرت اس بات کی مثال ہے کہ ایمان کے تحفظ، مظلوموں کی مدد اور ایک پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا۔ آج کے تناظر میں ہجرت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان ظلم، فتنہ، اور گناہ سے دوری اختیار کرے اور عدل و امن کی راہ پر چلے۔
انھوں نے ہجرت جیسے اسلامی اصولوں کی انتہا پسندانہ اور پرتشدد تعبیرات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ ان اصطلاحات کو ان کی اصل روح اور تاریخی سیاق و سباق کے مطابق سمجھا جائے جسکا عام کیا جانا ضروری ہے۔انھوں نے جہاد کے حوالے سے کہاکہ جہاد دراصل ایک داخلی اور معاشرتی جدوجہد ہے، جو ناانصافی، جہالت، غربت، اور بدعنوانی جیسے مسائل کے خلاف پرامن، تعمیری کوششوں پر مشتمل ہے۔ یہ تصور محض تلوار یا جنگ کا نہیں، بلکہ نفس کے خلاف جدوجہد، سچائی کے قیام، اور انسانی حقوق کے تحفظ کا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ قرآن و سنت میں جہاد کو دفاعی، محدود اور اخلاقی اصولوں کا پابند قرار دیا گیا ہے، نہ کہ جارحیت یا فتح کے بہانے کے طور پر۔انھوں نے وضاحت کی کہا کہ بعض انتہا پسند تنظیمیں ان اسلامی اصطلاحات کو مسخ کر کے اپنے سیاسی یا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں، جس سے نہ صرف اسلام کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے بلکہ مسلم نوجوان بھی گمراہی کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ وقت کی تقاضہ ہے کہ ہم اپنی مساجد، مدارس، یونیورسٹیوں اور میڈیا کے ذریعے یہ پیغام عام کریں کہ اسلام امن، رواداری اور انسانیت کا مذہب ہے، اور جہاد و ہجرت جیسے الفاظ کو خوف یا نفرت کا ذریعہ نہیں بلکہ فلاح اور اصلاح کا اہم ذریعہ ہے۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ