جموں, 15 اکتوبر (ہ س)۔
جموں و کشمیر میں طبی تعلیم کے شعبے نے گزشتہ چند برسوں کے دوران غیر معمولی ترقی کی ہے، جہاں ایم بی بی ایس نشستوں کی تعداد 2018 میں 500 سے بڑھ کر 2025 میں 1,525 تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم، اس تیز رفتار پیش رفت کے باوجود انفراسٹرکچر کی کمی اور فیکلٹی کی قلت اب بھی اس شعبے کی مکمل ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
سال 2018 میں جموں و کشمیر میں صرف دو گورنمنٹ میڈیکل کالج ،گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں اور گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے علاوہ ایس کے آئی ایم ایس میڈیکل کالج سرینگر اور نجی شعبے کا اے ایس کامز جموں کام کر رہے تھے۔
طبی تعلیم کے شعبے کو پہلا بڑا فروغ 2019 میں اس وقت ملا جب نیشنل میڈیکل کمیشن نے گورنمنٹ میڈیکل کالج اننت ناگ اور بارہمولہ کے لیے 100، 100 نشستوں کی منظوری دی۔ اس کے بعد ای ڈبلیو ایس کوٹے کے تحت اضافی نشستوں اور نئے میڈیکل کالجوں کے قیام سے داخلوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
تعلیمی سیشن 2024-25 تک جموں و کشمیر میں 1,185 ایم بی بی ایس نشستیں دستیاب تھیں، جن میں 100 نشستیں نجی کالج اے ایس کامز میں شامل تھیں۔
رواں سال ستمبر 2025 میں این ایم سی نے مزید 190 نشستوں کی منظوری دی جو جی ایم سی بارہمولہ، ڈوڈہ، کٹھوعہ، جموں اور سرینگر میں تقسیم کی گئیں، جس کے بعد گورنمنٹ میڈیکل کالجوں میں مجموعی نشستوں کی تعداد 1,375 تک پہنچ گئی۔
اسی کے ساتھ شری ماتا ویشنو دیوی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ایکسیلنس کٹرا کو بھی 50 نئی نشستوں کی منظوری ملی، جس سے نجی شعبے میں مجموعی گنجائش 150 نشستوں تک پہنچ گئی۔
اگرچہ یہ اضافہ قابلِ ذکر ہے، تاہم یہ منظوری ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پیش کیے گئے 450 نشستوں کے مجوزہ منصوبے سے خاصی کم رہی۔
محکمہ کے اعلیٰ حکام کے مطابق، نامکمل انفراسٹرکچر اور فیکلٹی کی کمی این ایم سی کی محدود منظوری کی بنیادی وجوہات ہیں۔ تاہم، محکمہ کو یقین ہے کہ آنے والے برسوں میں مطلوبہ معیار پورے کر کے مزید نشستوں کی منظوری حاصل کی جا سکے گی، جس سے ریاست میں طبی تعلیم اور صحت کے نظام کو مزید مضبوط بنیاد فراہم ہو گی۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / محمد اصغر