کولکاتا، 15 اکتوبر (ہ س)۔ درگاپور میڈیکل کالج کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے سلسلے میں پولیس نے اب متاثرہ کے مرد دوست واصف علی کو گرفتار کیا ہے۔ واصف کی عمر 23 سال ہے اور وہ اسی میڈیکل کالج میں سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق واقعے کی رات جمعہ کی شب 9 بجے کے بعد واصف متاثرہ کو کالج کیمپس سے تقریباً ایک کلومیٹر دور جنگلاتی علاقے میں لے گیا۔
پولیس نے ہفتہ کی صبح واصف کو اس وقت حراست میں لیا جب وہ زخمی طالبہ کو کالج کے ایمرجنسی وارڈ میں لے کر پہنچا۔ درگاپور کے ڈپٹی کمشنر ابھیشیک گپتا نے بتایا کہ واصف کے بہت سے بیانات ا خاص طور پر منگل کو کرائم سین کو ری-کریئٹ کرنے کے بعد اصل حقائق سے میل نہیں کھاتے۔
متاثرہ کے والد نے اپنی شکایت میں پانچ افراد کا نام لیا تھا، لیکن پولیس نے بدھ کو چھٹے کی گرفتاری کی تصدیق کی۔دریں اثنا، آسنسول درگاپور پولیس کمشنر سنیل چودھری نے منگل کی شام دیر گئے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ اجتماعی عصمت دری کا معاملہ نہیں ہے۔ جرم ایک ہی شخص نے کیا تھا۔ چودھری کے مطابق طبی معائنے کی رپورٹ میں گینگ ریپ کی تصدیق نہیں ہوئی۔ پولیس نے آج واصف کے کپڑے بھی قبضے میں لے لیے۔
تاہم، پولیس نے جن پانچ نوجوانوں کو پہلے گرفتار کیا تھا، انہیں عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور انہیں اجتماعی عصمت دری اور مشترکہ ارادے کی دفعات (سیکشن 70(1) اور 3(5) تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت ریمانڈ پر لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ کے ری -کریئیشن کے دوران ان پانچوں کی موجودگی کا پتہ چلا اور ایک ملزم سے متاثرہ کا موبائل فون برآمد ہوا۔
پولیس کمشنر نے کہا، ”ہم نے پانچوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ متاثرہ کے دوست کے کردار کی ابھی بھی تفتیش جاری ہے۔ اس سے بار بار پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اور اس کے کچھ بیانات کی ابھی بھی جانچ جاری ہے۔“
تاہم، چودھری نے کیس کو سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے حوالے کیے جانے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ محض میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر یہ بتا دینا کافی نہیں ہے کہ یہ اجتماعی عصمت دری نہیں تھی۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 70 کے مطابق، اگر ایک شخص عصمت دری کرتا ہے اور دوسرے اسی نیت سے اس کی مدد کرتے ہیں، تو ان سبھی کو اجتماعی عصمت دری کامجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد