واشنگٹن،10جون(ہ س)۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو کیلیفورنیا کے گورنر اور شہر کے میئر کی خواہشات کے خلاف لاس اینجلس میں مظاہروں کو روکنے کے لیے نیشنل گارڈ کے دستوں کی تعینات کر دیا اور اسے ایک عظیم فیصلہ قرار دیا ہے۔ٹرمپ نے ” ٹروتھ سوشل “ نے کہا کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو لاس اینجلس کو زمین بوس کر دیا جاتا۔ ٹرمپ کی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان تین دن تک ہونے والی جھڑپوں کے بعد شہر کے کچھ حصوں میں کشیدگی برقرار ہے۔یہ اس وقت ہوا جب کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے اعلان کیا ہے کہ وہ احتجاج کو روکنے کے لیے لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کے دستے بھیجنے کے حکم پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ نیوزوم نے ایکس پر لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے فائرنگ شروع کر دی اور نیشنل گارڈ کو غیر قانونی طور پر وفاقی بنایا۔ ٹرمپ نے جس حکم پر دستخط کیے اس کا اطلاق صرف کیلیفورنیا پر نہیں ہوتا ہم اس پر مقدمہ کرنے جا رہے ہیں۔یاد رہے لاس اینجلس میں حکام کی جانب سے غیر دستاویزی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے خلاف مسلسل تیسرے روز بھی احتجاج جاری رہا۔ وائٹ ہاو¿س کے ڈپٹی چیف آف سٹاف سٹیفن ملر نے مظاہروں اور ہنگاموں کو بغاوت کی کارروائی قرار دیتے ہوئے لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔حکام کے مطابق آٹھ جون کو دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ پولیس شہر کی مرکزی شاہراہ کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کر رہی ہے جس کا ایک حصہ مظاہرین نے بند کر دیا تھا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں کیں اور ان پر بوتلیں اور پتھر پھینکے۔مظاہرین نے پولیس کی کم از کم پانچ گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔ مظاہرین کے خلاف صدر کی سخت زبان کے باوجود انہوں نے ابھی تک بغاوت ایکٹ 1807 کا قانون نہیں لگایا ہے جو صدر کو شہری بدامنی کو دبانے کے لیے امریکی فوج کو تعینات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے کہا ہے کہ اگر لاس اینجلس میں تشدد جاری رہتا ہے تو پینٹاگون فعال ڈیوٹی فورسز کو متحرک کرنے کے لیے تیار ہے۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan