زکوة کا مقصد صرف تطہیر مال نہیں بلکہ تزکیہ نفس کا حصول بھی ہے
کروشی بیلگام میں منعقدہ دو روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس کے پہلے دن مفتی اشفاق قاضی کا خطاب ممبئی،دہلی،06? دسمبر(ہ س )۔ مہاراشٹر کے ضلع بیلگام کی بستی کروشی میں واقع جامع مسجد میں اجتماعی نظام زکوة کے عنوان سے منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے فیملی فرس
زکوة کا مقصد صرف تطہیر مال نہیں بلکہ تزکیہ نفس کا حصول بھی ہے


کروشی بیلگام میں منعقدہ دو روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس کے پہلے دن مفتی اشفاق قاضی کا خطاب

ممبئی،دہلی،06? دسمبر(ہ س )۔

مہاراشٹر کے ضلع بیلگام کی بستی کروشی میں واقع جامع مسجد میں اجتماعی نظام زکوة کے عنوان سے منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر کے بانی و ڈائریکٹر اور مفتی دارالافتائ و الارشاد جامع مسجد بمبئی مفتی اشفاق قاضی نے کہا کہ زکوٰة کے بارے میں عمومی تصور بہت محدود اور نامکمل ہے، عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ زکوٰة بس امیر کا مال غریب کو دینا ہے، جبکہ یہی نقطہ سب سے زیادہ گڑبڑ پیدا کرتا ہے، انہوں نے وضاحت کی کہ لفظ زکوٰة نہ صرف مال دینے کا نام ہے اور نہ صرف مال کو پاک کرنے کا عمل؛ بلکہ تزکیہ نفس بھی اس سے حاصل ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ مال تو بعد میں پاک ہوتا ہے، پہلے انسان پاک ہوتا ہے، جب تک دل سے مال کی محبت نہ نکلے اور نفس کی صفائی نہ ہو، زکوٰة کے اصل فوائد حاصل نہیں ہوسکتے۔مفتی صاحب نے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن میں تزکیہ کا ذکر زیادہ تر ذات اور نفس کی پاکیزگی کے معنی میں آیا ہے، فلا تزکوا انفسکم، قد افلح من زکاھا وغیرہ۔انہوں نے کہا کہ اہل اللہ کے نزدیک تزکیہ کا مطلب یہ تھا کہ انسان کے دل سے مال کی محبت نکل جائے، وہ مال کو اللہ کی امانت سمجھتے اور دوسروں پر خرچ کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحابہ کے نزدیک سب سے بڑی سعادت دوسروں پر خرچ کرنا تھی، وہ اپنے اوپر سب سے کم خرچ کرتے تھے، اس لیے کہ انہیں مال سے محبت نہ تھی۔انہوں نے زکوٰ? کے تین درجے (۱) نفس کی تطہیر(۲)مال کی تطہیر(۳)ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا بتائے، انہوں نے کہا کہ عام طور پر زکوٰة دینے والے سمجھتے ہیں کہ وہ غریبوں کا تعاون کررہے ہیں اس نیت سے اگرچہ فریضہ تو ادا ہوجاتا ہے، لیکن دل سے مال کی محبت کم نہیں ہوتی، روحانی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور اکثر لوگ حساب و کتاب میں بھی کوتاہی کرتے ہیں کیونکہ زکوٰة کے حقیقی مفہوم سے ناواقف ہوتے ہیں۔مفتی اشفاق قاضی نے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان معاشرے میں زکوٰة دینے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ زکوٰة لینے والوں کی تعداد کم اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ دیتے ہیں نہ لیتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ اسلامی اکنامی میں زکوٰة، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ غریبوں کے لیے امید کا راستہ، مضبوط معاشرہ اور انسانی فلاح و بہبود کا محرک ہے ، مفتی صاحب نے اس حوالے سے مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور شیخ احمد دیدات کی کتابوں کے اقتباسات بھی پیش کیے۔اجلاس میں مفتی صاحب کی گفتگو خطاب کے بجائے مذاکراتی انداز میں رہی، جس میں سامعین سے سوالات بھی کئے گئے اور سامعین کے سوالات کے جوابات بھی دیئے گئے اور زکوٰة کی اہمیت، افادیت اور معاشی کردار پر مفصل گفتگو ہوئی۔دریں اثناء پہلے دن کے اجلاس میں مغرب کے بعد کی نشست میں انہوں نے باشعور والدین اور محبت کا جال پیسوں کا جال کے موضوعات پر بھی روشنی ڈالی۔منتظمین کے مطابق اجلاس اتوار کو اپنے اختتام کو پہنچے گا جس میں سیرت کی روشنی میں درس و تدریس اور حلال انوسٹمنٹ کی شرعی رہنمائی کے موضوعات پر مفتی اشفاق قاضی صاحب کی تربیتی مجالس ہوگی۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande