
ڈراما”شب تار“ — اندھیرے، خاموشی اور انسانی بے بسی کی علامتی دنیا نے شائقین کو یکسر مسحور کر دیانئی دہلی، 14 نومبر(ہ س)۔ہندوستانی ادب میں پریم چند کی فکشن نگاری کو ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان کی کہانیوں میں فکر و فلسفہ کی گہرائی، سماجی حقیقتوں کی پیش کش اور حقیقت نگاری کا درخشاں رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ پریم چند کی تحریروں میں جذباتیت کے بجائے حقائق پر مبنی تجزیاتی انداز ملتا ہے۔ ان کے افسانے محض تفریح کے دائرے تک محدود نہیں رہتے بلکہ سماجی شعور کی بیداری اور سماجی تبدیلی کے عزم کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ان کے کردار صرف فرد کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ پورے معاشرے کی علامت بن کر سامنے آتے ہیں۔انہی شاہکار کہانیوں میں سے ایک ”شبِ تار“ ہے جسے آج اردو اکادمی، دہلی کے زیرِ اہتمام جاری چھ روزہ ڈراما فیسٹول کے چوتھے روز انترال تھیٹر گروپ نے نہایت فن کارانہ انداز میں اسٹیج کیا۔ واضح رہے کہفیسٹول کی تمام پیشکشیں منڈی ہاوس کے شری رام سینٹر میں روزانہ شام ساڑھے چھ بجے پیش کی جا رہی ہیں، جہاں شائقین کی بڑی تعداد ان سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔”شبِ تار“ دراصل فرانسیسی ڈراما نگار مورِس میٹرلنک کے مشہور ڈرامے The Blind کا ہندوستانی روپ ہے جسے پریم چند نے اپنی فنی صلاحیت سے ہندوستانی تہذیبی رنگ عطا کیا۔ پرفارمنس سے قبل ناظمِ محفل سفیر صدیقی نے پریم چند کے فکر و فن، ڈرامے کی اقسام اور موجودہ عہد کے ڈیجیٹل تفریحی منظرنامے پر مختصر گفتگو کی۔”شبِ تار“ چودہ نابینا افراد کی کہانی ہے جو ایک جزیرہ نما جنگل میں بھٹک جاتے ہیں کیونکہ ان کا رہنما و محافظ ایک سادھو اچانک لاپتہ ہو جاتا ہے۔ اس کے غائب ہوتے ہی سب نابینا شدید مایوسی، خوف اور بے بسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تخلیق کار نے اس کہانی کے ذریعے یہ دکھایا ہے کہ نابینائی محض جسمانی محرومی نہیں بلکہ وجودی شعور اور اپنی شناخت تک کو دھندلا دیتی ہے۔ ایک کردار کا جملہ: ”ہم میں سے کسی نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں،ہمیں خود نہیں معلوم ہم کون ہیں“ اسی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔یہ ڈراما انسان کی وجودی کیفیت کو علامتی پیرائے میں پیش کرتا ہے، جہاں لاپتا سادھو ایک ”خاموش اور غیر جواب دہ خدا“ کی علامت کے طور پر ابھرتا ہے۔ میٹرلنک کی اصل کہانی انسان کی بے بسی اور وجودی کشمکش پر مبنی ہے جس میں پریم چند نے اپنی حقیقت پسندی اور علامتی اظہار سے مزید گہرائی پیدا کی۔ اس اسٹیج پیشکش میں فکری، فلسفیانہ جہتوں کے ساتھ ساتھ ہلکا طنزیہ پہلو بھی جھلکتا ہے۔اداکار مکالمے ادا کرتے ہیں مگر جسمانی حرکت نہیں کرتے، جس سے ایک ساکت، خوف آلود اور غیر یقینی فضا قائم ہوتی ہے۔ قدموں کی ا?ہٹ، بچے کے رونے، کتوں کے بھونکنے، پرندوں کی چہچہاہٹ، سمندری لہروں کے شور اور ڑالہ باری کی ا?وازوں کا امتزاج ایک اثر انگیز ماحول تخلیق کرتا ہے۔ دس کرداروں پر مشتمل یہ ڈراما ایک ہی منظر میں مکمل طور پر پیش کیا گیا۔ ہدایت کار فہد خان نے میٹرلنک کے پیچیدہ فلسفیانہ خیالات کو پریم چند کے سماجی شعور کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک فکر انگیز اور دل کو چھولینے والا تجربہ پیش کیا۔ اداکاروں نے نابینائی کو محض جسمانی نہیں بلکہ احساس، لہجے اور آواز کے ذریعے مو¿ثر انداز میں پیش کیا جو ا±ن کی عمدہ اداکاری کا ثبوت ہے۔اختتام پر آڈیٹوریم میں گہری خاموشی چھا گئی، ناظرین دیر تک نشستوں پر بیٹھے رہے جیسے کسی خواب سے بیدار ہو کر خود سے سوال کر رہے ہوں۔ یہ خاموشی ا±س وقت ٹوٹی جب ناظمِ محفل نے دوبارہ مائک سنبھالا اور پھر پورا ہال بھرپور تالیوں سے گونج اٹھا۔آخر میں اکادمی کے لنک آفیسر رمیش ایس لعل، محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے ہدایت کار فہد خان کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کر کے ا±ن کی شان دار پیشکش کو سراہا۔ اس موقع پر ڈرامے کے شائقین کے ساتھ طلبہ کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais