امریکی عہدے داران نے غزہ معاہدہ ٹوٹنے سے خبردارکردیا
واشنگٹن،12نومبر(ہ س)۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے متعدد اعلیٰ عہدے داروں نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کے ٹوٹنے کے امکان پر شدید تشویش ظاہر کی ہے، کیونکہ اس کے کئی بنیادی نکات پر عمل درآمد میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں اور مع
امریکی عہدے داران نے غزہ معاہدہ ٹوٹنے سے کیاخبردار


واشنگٹن،12نومبر(ہ س)۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے متعدد اعلیٰ عہدے داروں نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کے ٹوٹنے کے امکان پر شدید تشویش ظاہر کی ہے، کیونکہ اس کے کئی بنیادی نکات پر عمل درآمد میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں اور معاہدے کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں۔امریکی اخبار پولیٹیکو کے مطابق یہ بات ان خصوصی دستاویزات سے سامنے آئی ہے جو گزشتہ ماہ امریکی سینٹ کام (CENTCOM) اور سول-ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر کے زیر اہتمام دو روزہ اجلاس میں پیش کی گئیں۔ یہ مرکز جنوبی اسرائیل میں امن معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا جو 10 اکتوبر 2025 سے نافذ العمل ہے۔

اجلاس میں امریکی سکیورٹی کوآرڈینیٹر برائے اسرائیل و فلسطینی اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فنزل کی سربراہی میں تقریباً 400 شرکاءنے شرکت کی، جن میں امریکی وزارتِ خارجہ، وزارتِ دفاع، غیر سرکاری تنظیموں اور نجی اداروں کے نمائندے شامل تھے۔دستاویزات میں خاص طور پر اس بات پر خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آیا غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کے قیام کا منصوبہ عملی طور پر ممکن بھی ہے یا نہیں۔ ایک سلائیڈ میں امن منصوبے کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے درمیان سوالیہ نشان دکھایا گیا ہے، جو معاہدے کے مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورت حال کی علامت ہے۔اجلاس میں پیش کیے گئے مواد میں امریکی حکومتی رپورٹیں، غزہ کی زمینی صورت حال سے متعلق فیلڈ رپورٹیں اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے انسٹی ٹیوٹ کی مشاورتی دستاویزات بھی شامل تھیں۔

مجموعی طور پر 67 دستاویزات پر مشتمل یہ پیکیج چھ حصوں میں تقسیم ہے، جو مستقل اور پائے دار امن کے راستے میں حائل رکاوٹوں اور امریکی شمولیت کے منصوبوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ان میں شامل نقشوں سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ غزہ میں صرف سکیورٹی ہی نہیں بلکہ معاشی بحالی اور تعمیرِ نو کی نگرانی میں بھی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔دستاویزات کے مطابق غزہ کو چلانے والی فلسطینی انتظامیہ کو امریکہ اور عالمی برادری کی طویل مدتی مالی و سکیورٹی معاونت کی ضرورت ہو گی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حماس جنگ کے بعد دوبارہ اپنی پولیس اور سکیورٹی فورسز کے ذریعے علاقے پر کنٹرول قائم کر رہی ہے، جبکہ روزانہ صرف 600 ٹرک امداد پہنچ رہے ہیں، جس سے شدید رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ایک اور امریکی رپورٹ کے مطابق حماس وقت حاصل کرنے اور دوبارہ اقتدار مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ممکنہ طور پر پراکسی حملوں اور پروپیگنڈے کے ذریعے اثر و رسوخ بحال کرے گی۔امریکہ اس وقت اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بعد بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس بلانے کی تیاری میں ہے تاکہ تعمیرِ نو اور سکیورٹی کے لیے مالی امداد حاصل کی جا سکے۔ تاہم واضح ٹائم لائن طے نہیں کی گئی۔

پینٹاگان کے ایک اہل کار نے تصدیق کی کہ یہ دستاویزات انتظامیہ کی گہری تشویش ظاہر کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ہم اقوامِ متحدہ کے فیصلے کے منتظر ہیں، اس کے بعد ڈونرز کانفرنس ہو گی اور پھر ممالک سکیورٹی فورسز کے لیے وعدے کریں گے۔رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان غزہ کے انتظام پر اختلافات برقرار ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی 2007 سے پہلے کی طرح کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے، مگر اسرائیل اسے قبول نہیں کرتا۔ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے مطابق فلسطینی اتھارٹی صرف اصلاحات کے بعد اس عمل میں شامل ہو سکتی ہے۔دستاویزات کے اختتام پر ایک امریکی اہل کار کے حوالے سے کہا گیا ابھی یہ سوال برقرار ہے کہ کیا امریکہ کے لیے غزہ میں طویل مدتی کردار رکھنا سمجھ داری ہو گی یا نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ دیگر شراکت دار ممالک زیادہ فعال کردار ادا کریں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande