
واشنگٹن،12نومبر(ہ س)۔امریکی ذرائع کے مطابق کچھ رپورٹوں میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ امریکی فوج غزہ کے قریب ایک عارضی فوجی اڈے کے قیام پر غور کر رہی ہے جو تقریباً 10,000 افراد کے کام آنے کی گنجائش رکھتا ہو۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی استحکام فورس تشکیل دی جا سکے جو اسرائیل اور حماس کے درمیان کمزور سی جنگ بندی کی نگرانی کرے۔
تاہم وائٹ ہاو¿س نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اب تک اس اقدام کی کوئی باقاعدہ منظوری نہیں دی گئی۔ وائٹ ہاو¿س کی ترجمان کیرولین لیویٹ کے مطابق جو دستاویز پہلے منظر عام پر آئی تھی وہ محض ایک انفرادی مسودہ تھا جسے فوج کے چند اہل کاروں نے تیار کیا تھا اور اسے سرکاری فیصلہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ذرائع نے بتایا کہ امریکی نیوی نے کئی کمپنیوں سے لاگت کا تخمینہ طلب کیا ہے تاکہ ایک خود کفیل عارضی فوجی اڈا قائم کیا جا سکے، جس میں 10,000 افراد کے لیے رہائش، دفتر کے لیے 10,000 مربع فٹ جگہ اور 12 ماہ کے لیے بنیادی سہولیات شامل ہوں۔ اس میں خوراک، پانی، توانائی کی پیداوار، صفائی، طبی سہولت اور قابل اعتماد مواصلاتی نیٹ ورک شامل ہو گا۔
امریکی حکام نے وضاحت کی کہ یہ اقدام ابتدائی منصوبہ بندی ہے اور ابھی اس پر کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہوا۔ اڈے کا مقصد ممکنہ طور پر جنوبی اسرائیل میں بین الاقوامی استحکام فورس کے لیے بیس قائم کرنا ہے۔ اس میں غیر ملکی فوجیں بھی شامل ہو سکتی ہیں تاکہ غزہ میں امن قائم رہے۔ اس منصوبے میں سکیورٹی اقدامات، رسائی کنٹرول، ہنگامی ردعمل اور بڑے پیمانے پر زخمی ہونے کی صورت حال میں تیاری شامل ہے۔اسرائیل کے فوجی ترجمان نداف شوشانی نے کہا کہ امریکی منصوبوں کے بارے میں ان کے پاس کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہیں، لیکن دونوں ممالک غزہ کے مستقبل پر مختلف تجاویز پر غور کر رہے ہیں۔متعدد عرب اور اسلامی ممالک نے بھی اس بین الاقوامی استحکام فورس میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی۔ تاہم انھوں نے مطالبہ کیا کہ یہ موجودگی اقوامِ متحدہ کے تحفظ اور منظوری کے تحت ہو، تاکہ اس کی قانونی اور عالمی حیثیت تسلیم ہو۔پہلے امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان ٹیم ہوکینز نے واضح کیا تھا کہ امریکی فوج کسی بھی فورس کو غزہ میں تعینات نہیں کرے گی، بلکہ اس کا کردار صرف بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ منصوبہ بندی اور تیاری تک محدود ہو گا۔یہ اقدامات امریکہ کی جانب سے غزہ میں عارضی امن اور استحکام قائم رکھنے کی کوشش کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں، جبکہ عملی تعیناتیاں ابھی مستقبل میں طے کی جائیں گی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan