
نئی دہلی،یکم نومبر(ہ س)۔نیلسن منڈیلا سینٹر برائے امن و رفع تنازعات(این ایم سی پی سی آر)،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک سو پانچویں یوم تاسیس کی تقریبات کے حصے کے طورپر جامعہ میں ’مہاتما گاندھی کا سوراج‘ کے عنوان سے ایک فکر انگیز اور نہایت اہم ورکشاپ منعقد کیا۔جناب کے۔ستیش نامبودیری پد،ڈائریکٹر جنرل، دوردرشن،پروفیسر سنجیو کمار شرما،سابق وائس چانسلر مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی موتیہاری،اور ڈین چرن سنگھ یونیورسٹی،میرٹھ، اورپروفیسر سنجیو کما رایچ۔ایم شعبہ سیاسیات دہلی یونیورسٹی پر مشتمل ماہرین کے پینل نے ورکشاپ میں حصہ لیا اور شیخ الجامعہ،پروفیسر مظہرآصف، اورپروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی، مسجل جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسر نیلو فر افضل، ڈین اسٹوڈینٹس ویلفیئر اور سینٹر کے اعزازی ڈائریکٹر پروفیسر ابو ذر خیری کے ساتھ ساتھ دوسرے فیکلٹی اراکین پروفیسر کوشیکی،پروفیسر راجیو نین اور پروفیسر اسلم خان نے ریسرچ اسکالر، فیکلٹی اراکہن اور جامعہ کے اہل کاروں سے بھرے ایف ٹی کے سینٹر آڈیٹوریم میں خطاب کیا۔واضح ہو کہ اس ورکشاپ کو ڈاکٹر بینش مریم نے سدھانشو ترویدی کے ساتھ مل کر کنوین کیا تھا۔
پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی، نے اپنے تعارفی خطبے میں کہا کہ کیوں کہ جامعہ ایک سو پانچ سال قدیم ہوگئی ہے اس لیے یہ ضروری تھاکہ مہاتما گاندھی کی خدما ت کو یاد کیا جائے جن کی بیش قیمت خدمات صرف ملک کے لیے نہیں اس یونیورسٹی کی بنیاد کے لیے بھی جس کے ساتھ ان کا گہرا جذباتی لگاو¿ تھایاد کیاجائے۔جامعہ کے تصور کو انہوں نے ایک حدتک متحرک کیا اور یہ کہا جاسکتاہے کہ انتہائی یقین کہ ساتھ کہ ’جامعہ ملیہ اسلامیہ گاندھیائی فلسفے کا جتیا جاگتا مظہر ہے۔نیلسن منڈیلا اور مہاتما گاندھی کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے پروفیسر رضوی نے کہاکہ ”گاندھی کے سورا ج کا مطلب سیاسی آزادی سے بہت زیادہ ہے یہ خود کی حکومت اور ذہن، جسم اور روح کی آزادی ہے۔ مہاتما گاندھی کے لیے انہوں نے کہاکہ ’آزادی صرف کوئی لائسنس نہیں بلکہ یہ ضبط نفس کی مشق ہے۔‘ گاندھی کے تصورات کی توسیع اور وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر رضوی نے کہاکہ یہ وہ میکانزم ہے جہاں پولیٹی میں عوام ہی اصل فیصلہ ساز ہوتے ہیں اور صرف ایسے ہی نظام میں جمہوریت حقیقی معنوں میں نشو و نما پاسکتی ہے۔“پروفیسر رضوی نے گاندھیائی کے اہم تصورات اور ان کی عصری معنویت پر تفصیل سے گفتگو کی جن میں سوراج، کھادی، دیہی ترقی اور پنچایت راج کا ادارہ شامل ہے اوروضاحت کی کہ یہ تصورات کس طرح حکومت ہند کے مختلف اقدامات جیسے اسکل انڈیا، اور میک ان انڈیا کی لفسیانہ بنیاد تشکیل دیتے ہیں۔ پروفیسر رضوی نے ملک کے تعلیمی اور سماجی منظرنامے کو جہت اور سمت دینے میں جامعہ کو اہم رول ادا کیا ہے اس کا حوالہ دیتے ہوئے خاص طورسے اس کی نئی تعلیم کے تصور اور یوینورسٹی کے شمولیاتی اور مشترکہ نظام تعلیم کے تجربے میں جامعہ کے رول کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہند، اور جامعہ کے بانی رکن اور انیس سو چھبیس سے انیس سو اڑتالیس تک اس کے وائس چانسلر کابھی حوالہ دیا جنہوں نے جامعہ کو ’نئی تعلیم کی تجربہ گاہ بنایا‘۔ پروفیسر سنجیو کمار نے مہاتما گاندھی کے بنیادی تصورات اور ان کی عصری معنویت پر توجہ مرکو ز رکھتے ہوئے پیچیدہ و ثروت مند اخلاقی اور وجودیاتی نظریات کے فریم ورک پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ گاندھی نے ’سناتنی پرمپرا‘ اور مذہب کا تکثیری وڑن کی وکالت کی۔گاندھی کے رام راجیہ کے اپروچ میں مذہب کے بجائے اعتقاد میں یقین کارفرما تھا جسے مذہب کے تعاملی اور انسٹرومینٹل نظریات کے درمیان امتیاز کرکے سمجھا جاسکتاہے۔ کیوں کہ اعتقاد ایک مجرد،موضوعی تصور ہے۔ایسے میں اعداد و شمار کا نظریہ یا مادہ اور سماج کے معروض نقطہ نظر ثانوی چیز بن جاتی ہے اور گاندھی کا تصور کہ ”کمزورمیں سچ بولنے کی ہمت ہوتی ہے‘ واضح اور عیاں ہوجاتاہے۔اپنی دلچسپ اور فلسفیانہ گفتگو میں انہوں نے بھگوت گیت اور ہند سوراج،صداقت کے تصورات، اخلاقیات کی زندگی،اور تکلیف اور عرفان ذات کی وجودیاتی اور ماہیتی پیچیدگی کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا۔انہوں نے حکومت کے سلسلے میں گاندھی کی فہم پر بھی اظہار خیال کیا اور اسے سخت اخلاقی، سیلف ٹیکچویل عمل بتایا جو غیر ادارہ جاتی اتفاق رائے کے نظریے پر کام کرتی ہے۔انہوں نے اپنی گفتگو کے اخیر میں گاندھی کے سوراج کو بے خوف تنقید قراردیا۔ پروگرام کے مہمان خصوصی جناب کے۔ ستیش نامبودیرپد نے جامعہ کو ایک سو پانچ سال مکمل کرنے پر مبارک باد دی اور اسے عظیم کامیابی بتایا خاص طور سے اس نے ہندوستانی تاریخ،جد وجہد آزادی اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کیاہے۔یجر وید اور کالی داس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے فطرت کے ساتھ زندگی اور فطرت کا حصہ ہونے پر توجہ مرکوز کی اور اسے بدقسمتی بتاکہ ”پندرہ ملین نامیات دنیا میں بستے ہیں یہ صرف انسان ہے جو اپنی روای اور دنیاوی آسائش کے لیے دنیا میں ب سے زیادہ تباہی پھیلاتاہے۔ کچھ سائنس دانوں کواندیشہ ہے کہ اس شرح کی تباہی و بربادی سے نسل انسانی بھی معدوم ہوجائے گی جیسے ڈائنا سور معدوم ہوگئے۔ایسی صورت حال میں گاندھیائی فکر اور فلسفہ معنویت سے بھرپور ہوجاتے ہیں جس میں ان کی پائے دار ترقی کا تصور بھی شامل ہے۔انہوں نے اسکالر سے کہاکہ فضول اور ضرورت سے زیادہ استعمال کی صورت حال کوتنقید ی نقطہ نظر سے دیکھیں اور گاندھی جی کے پیش کردہ ترقی اور مادیت کے تصورات کی روشنی میں جانچیں پرکھیں ’سب کی ضرورتوں کے لیے کافی کچھ ہے،ہاں کسی کی بھی لالچ اور حرص کے لیے بہت کم ہے۔‘پروفیسر سنجیو کمار کے شرما نے بصیرت افروز گفتگو کی اور ڈربن جنوبی افریقہ میں گاندھی کے زمانہ قیام کی تصویر کھینچ کر رکھ دی جہاں انہوں نے فونیکس آشرم قائم کیا اور تعلیم وتہذیب سے متعلق اپنے نظریات وخیالات کو دریافت کیا۔یہ بتاتے ہوئے کہ گاندھیائی فلسفہ اور عمل ہندوستانی تہذیب و فکر میں رچی بسی ہے انہوں نے کہاکہ گاندھی ہمیشہ یہ مانتے تھے کہ نیا ہندوستان برطانیہ کی کاپی نہیں ہوگا‘۔پروفیسر شرما نے کہا کہ گاندھی نے ہمیشہ تنقید کو قبول کیا اور اپنے ناقدین کواپنے قریب رکھا جس سے ان کے انکسار اور کشادہ ظرفی کا اندازہ ہوتاہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اظہار رائے اور تنقید کی آزادی ہندوستانی آئین سے ہی نہیں آتی بلکہ وہ ہندوستانی تہذیب و روایت کا ناقابل ینفک جزو ہے۔انہوں نے بتایا کہ گاندھی سے مہاتما بننے کا سفر طویل اور سخت کاوش اور مشکلات سے بھرا تھا۔انہوں نے اخیر میں کہاکہ تعلیم کا مقصد انسان کو عظیم بنانا ہونا چاہیے صرف اسناد کی فراہمی کا وسیلہ نہیں۔تعلیم کو بہترین شہری بنانے چاہئیں اور اچھے انسان بنانے چاہئیں۔پروفیسر مظہر آصف شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ گاندھی کے ساتھ ان کا تعلق صرف عالمانہ نہیں بلکہ تجرباتی ہے کیوں کہ وہ اس سرزمین سے آتے ہیں جہاں سے گاندھی جی نے ستیہ گرہ شروع کیا تھااور ابھی وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ،ملیہ اسلامیہ کی حیثیت سے خدما ت انجام دے رہے ہیں جس کی بنیا داور قیام میں مہاتما گاندھی کی خدمات اور کاوشوں کا بڑا رول ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو گاندھی کی دو اہم خدمات ہیں ایک نئی تعلیم کا تصور اورتعلیم کے ساتھ اس کا تجربہ اور دوسری اہم بات یہ کہ مہاتما گاندھی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مالی مدد فراہم کرانے میں سخت کوشش کی وہ بھی ایسے حالات میں جب جامعہ کو سخت مالی بحران کا سامنا تھااور کہا کہ وہ ذاتی طورپر اس کے لیے بھیگ مانگنے کے لیے کاسہ اٹھالیں گے اگر ادارہ کو مالی مشکلات کے سلسلے میں فکر مندی لاحق ہوئی۔اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یونیورسٹی کو اپنا سفر طے کرنا ہے‘ انہوں نے طلبہ سے گاندھی کے آئیڈیل کی تعمیل کے لیے کہا خاص طور سے ستیہ گرہ اور اپنی زندگیوں میں سچائی و صداقت کی شمولیت کے اصولوں کو اپنا کر۔ ڈاکٹر بینش مریم،ایسو سی ایٹ پروفیسر،این ایم این سی پی سی آر نے شکریہ ادا کیا اور قومی ترانہ کی نغمہ سرائی پر پروگرام کا اختتام ہوا۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais