
واشنگٹن،یکم نومبر(ہ س)۔
عراق کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی نمائندے مارک سافایا نے واضح کیا ہے کہ واشنگٹن کسی ایسی مسلح جماعت کی موجودگی کو قبول نہیں کرتا جو ریاستی اختیار سے باہر اپنی سرگرمیاں انجام دے۔سافایا نے’ایکس‘ پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں زور دیا کہ تمام اسلحہ ... بالخصوص ایران کے اتحادی گروہوں کا اسلحہ ... وہ عراق کی قانونی حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہیے اور سیکیورٹی اداروں کو ایک متحد قیادت کے تحت کام کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عراق کو ایک خود مختار ملک ہونا چاہیے جہاں کسی بیرونی قوت کی مداخلت نہ ہو۔ادھر عراقی حکومت نے امریکی نمائندے کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ موقف ”عراقی عوام اور حکومت کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے ایک درست فہم“ کی عکاسی کرتا ہے۔امریکی نمائندے کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب عراق میں مسلح گروہوں کے مستقبل پر بحث میں شدت آ گئی ہے۔ ان گروہوں کو ملک کے سیکیورٹی اور سیاسی منظرنامے میں وسیع اثر و رسوخ حاصل ہے، خاص طور پر وہ تنظیمیں جو ایران سے منسلک ہیں۔‘اسلحہ صرف ریاست کے ہاتھ میں ہو” کا معاملہ بغداد اور واشنگٹن کے درمیان سب سے حساس امور میں شمار ہوتا ہے۔ امریکہ کا موقف ہے کہ ایران نواز گروہوں کا بڑھتا ہوا اثر عراق کے استحکام اور اس کے بین الاقوامی تعلقات کے لیے خطرہ ہے۔ تاہم بعض عراقی جماعتوں کا کہنا ہے کہ خود امریکی موجودگی ہی ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔دوسری جانب عراقی حکومت اس کوشش میں ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ اپنی تزویراتی شراکت کو برقرار رکھتے ہوئے ان مسلح گروہوں کے ساتھ تعلقات کو بھی متوازن انداز میں سنبھالے، جو داعش کی شکست کے بعد سے ملک کے داخلی منظر نامے کا حصہ بن چکے ہیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan