لکھنؤ، 21 نومبر (ہ س)۔ نو اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں جیت اور ہار کے نتائج کا حساب لگانے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف ایس پی تمام سیٹوں پر جیت کا دعویٰ کر رہی ہے وہیں بی جے پی بھی جشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ادھر کانگریس اور بی ایس پی خاموش ہیں۔ انتخابات کے دوران بھی کانگریس لیڈروں میں کوئی جوش نہیں تھا اور نہ ہی وہ ایس پی کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ بی ایس پی کی خاموشی پر لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں، بدھ کو 9 اسمبلی سیٹوں پر بی جے پی اور ایس پی کے درمیان واضح لڑائی دیکھنے میں آئی۔ بی ایس پی کے کارکن بھی کئی مقامات پر لاپتہ رہے۔ ساتھ ہی کانگریس میں بھی ایس پی کے ساتھ جوش اور تال میل کہیں نظر نہیں آیا۔ یہاں تک کہ اکھلیش یادو صبح سے ہی سوشل میڈیا پر انتخابی عمل کے دوران بے ضابطگیوں کا معاملہ اٹھاتے رہے، جس پر الیکشن کمیشن نے بھی کارروائی کی، لیکن پورے ضمنی انتخاب کے دوران بی ایس پی کے سوشل میڈیا پر بھی کانگریس لیڈر اکھلیش یادو کی حمایت کرتے نظر نہیں آئے چیف مایاوتی نے صرف ایک بار پریس کانفرنس کی۔ اس کے بعد وہ خاموش رہی۔ بی ایس پی کے دیگر بڑے عہدیداروں نے بھی اپنے امیدواروں کی مہم چلانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس کی وجہ سے بی ایس پی کی انتخابی مہم پھیکی رہی۔ اتنا ہی نہیں، بوتھوں پر بی ایس پی کی طرف سے کوئی ہنگامہ نہیں دیکھا گیا۔ کئی جگہوں پر بی ایس پی کے ایجنٹوں کی بھی غیر موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ بی ایس پی کی خاموشی پر اب لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں، کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے دباؤ میں بی ایس پی نے انتخابات میں خاموشی اختیار کی، کیونکہ اس کی فعالیت سے کئی جگہوں پر بی جے پی امیدواروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ بی ایس پی پہلے ہی سمجھ چکی تھی کہ وہ اس ضمنی انتخاب میں صرف اپنی موجودگی درج کروا رہی ہے۔ وہ اس میں کچھ خاص نہیں کر پا رہی ہیں، کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی ایس پی سربراہ جان بوجھ کر سرگرم نہیں ہوئیں، تاکہ وہ ہار کے بعد اپنی شبیہ گرنے کے الزامات سے بچ سکیں۔ انتخابات میں شکست کے بعد بی ایس پی اس شکست کا الزام علاقائی عہدیداروں پر عائد کرے گی اور انہیں عہدے سے ہٹائے گی اور یہ پیغام دینے کی کوشش کرے گی کہ پارٹی کی شکست علاقائی عہدیداروں کی بے عملی کی وجہ سے ہوئی ہے۔
---------------
ہندوستان سماچار / عبدالسلام صدیقی