غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام غالب توسیعی خطبے کا انعقاد
نئی دہلی،18مارچ(ہ س)۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام غالب توسیعی خطبے کا انعقادسنیچر کے روز ایوان غا
غالب اکیڈمی 


نئی دہلی،18مارچ(ہ س)۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام غالب توسیعی خطبے کا انعقادسنیچر کے روز ایوان غالب میں کیا گیا، جس میں اردو فارسی کے معروف محقق ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ’غالب: بر صغیر کا پہلا ترقی پسند شاعر‘ کے موضوع پر خطبہ پیش کیا۔ اس اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے فرمائی اور فارسی کے ممتاز استاد و دانشور پروفیسر اخلاق احمد آہن نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کہا کہ غالب کی شخصیت اپنے دور کی بہترین بصیرت کی نمائندگی کرتی ہے۔ انھوں نے زندگی کے ہر پہلو کو ان آنکھوں سے دیکھا جو ہر کس و ناکس کو میسر نہیں ہوتی۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیاں آپ سب کے پیش نظر ہیں اور اس ادارے کی سرگرمیوں میں اس وقت بھی رکاوٹ حائل نہیں ہوئی جب کووڈ کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے نکلنے میں خوف محسوس کر رہے تھے۔ یہاں توسیعی خطبات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اہم موضوعات پر اظہار خیال کے لیے اہم لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ آج کا خطبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس اجلاس کے مہمان مقرر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کہا کہ آج کے خطبے کا موضوع نہایت اہم ہے اور جب ہم جدید عہد کے تقاضوں پر نظر کرتے ہیں تو ہم کو نظر آتا ہے کہ غالب ترقی پسندی میں ہم سے بہت آگے ہیں اور جن باتوں کو یہ سوچ کر کہا گیا تھا کہ وہ پہلی بار کہی جارہی ہیں کلام غالب پر نظر کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ غالب پہلے ہی ان نکات پر غور کر چکے ہیں۔

اس اجلاس کے مہمان خصوصی پروفیسر اخلاق احمد آہن نے کہا کہ غالب ہماری روایت کا سب سے زیادہ روشن ضمیر شاعر ہے انھوں نے جس میدان میں بھی قدم رکھا وہاں کچھ نئے نقوش چھوڑے ہیں۔ مثلاً ان کی نثر ہی کو لیجیے تو ان کے زمانے میں جس نثر کا رواج تھا انھوں نے اس کی پیروی نہیں کی بلکہ ایک نئی طرز ایجاد کر دی۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی صاحب نے بہت عمدہ موضوع کا انتخاب کیا ہے غالب کو اس زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایڈوکیٹ خلیل الرحمٰن صاحب نے کہا کہ غالب کو کئی زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن آج داکٹر سید تقی عابدی نے جس زاویے سے پیش کیا وہ نہایت دلچسپ ہے۔ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے افراد کثیر تعداد میں اس خطبے میں شریک ہوئے۔

ہندوستھان سماچار/محمد


 rajesh pande