زبان و ادب کے لئے تاریخی تسلسل اور عصری حسیت لازم ملزوم ہیں: پروفیسر محمد ثنااللہ ندوی
علی گڑھ، 4 فروری(ہ س)۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صدر شعبہ عربی پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی نے ب
زبان و ادب کے لئے تاریخی تسلسل اور عصری حسیت لازم ملزوم ہیں: پروفیسر محمد ثنااللہ ندوی


علی گڑھ، 4 فروری(ہ س)۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صدر شعبہ عربی پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی نے بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ میں واقع انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی دعوت پر”زبان و ادب اور مستقبل“ کے موضوع پر منعقد ہونے والے دو روزہ بین الاقوامی سیمینار میں کلیدی خطبہ پیش کیا۔پروفیسر ثناء اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ زبان و ادب کے ارتقاء کے بنیادی سوالوں کو انسان، سماج اور تاریخ کے لسانی تاریخی تسلسل سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ زبان و ادب ایک طرف اگر معاشرہ کے ماضی اور حال کا پروردہ ہیں اوران کی عکاسی کرتے ہیں، تو دوسری طرف مستقبل بینی بھی ان کا شیوہ ہے جس کی بدولت علوم و فنون کی پیش رفت، ٹکنالوجی اور انسان کے باہمی تال میل،اقدار کی شکست و ریخت اور تفہیم و تعبیر کے ابھرتے زاوئے جدیدلسانی امکانات سے ہمیں روبرو کراتے ہیں۔کسی بھی زبان کا ادبی منظر نامہ موضوعات اورفنی پیرایوں کے لحاظ سے ایک طرف اگر جدید علمی اور سائنسی معاشرہ کی نمائندگی کرتا ہے، تو دوسری طرف شعریات، ذوقیات، روحانیات، تصوف، فلسفہ اور دوسری روایتی دانش و بینش کی استمراریت جیسے عوامل اسے آفاقی رنگ عطا کرتے ہیں۔ زبان و ادب کے اس ارتقائی منظر نامہ کوتکاملی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے جہاں روایت کوعصریت سے بیگانہ نہ کیا جائے، نہ ہی مستقبل کوماضی اور حال کا حریف بنایا جائے۔ماضی بینی ضروری ہے، لیکن ماضی پرستی یا اس کے برعکس مستقبل کی ایسی مشاطگی بھی غیر متوازن رویہ ہے جو زبان، ادب، شاعری اور ثقافتی دھنک رنگ کومیکانیکی نظریہئ علم سے دیکھنے پر اصرار کرتا ہو۔ کلاسیکیت،جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات اور حالیہ پس ما بعد جدیدیت کے علم البیان اور ادبی تنقید کے اصول مشہور جرمن فلسفی نطشہ کے اسی تصور زمان کی غمازی کرتے ہیں۔ پروفیسرثناء اللہ ندوی نے برصغیر کے مقامی لسانی تناظر میں ادبیات کے ارتقاء کے موضوع پر ایک علاحدہ خطاب میں اردو زبان میں دینیات بالخصوص حدیث کے اثاثہ کی سماجی اور لسانی اہمیت کو واضح کیا۔

بنگلہ دیش کے تاریخی شہر سنارگاؤں میں علمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ندوی نے بر صغیر کے تصوف کے ارتقاء میں سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانہ میں مشہور صوفی بزرگ شیخ شرف الدین ابوتوامہ اور ان کے شاگرد شیخ شرف الدین احمد بن یحی منیری کے علمی اور اصلاحی کارناموں کا ذکرکیا اور روایتی دینی علوم کو سماجیات اور عصری دانش سے ہم آہنگ کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا۔ ایک دیگر گفتگو میں پروفیسر ندوی نے جنوب مشرقی ایشیاء بالخصوص ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ تاریخی، سماجی، ثقافتی، علمی اور ادبی میراث کا ذکر کرتے ہوئے ایک باشعورسماج کی تشکیل میں اس کے مثبت کردار پر زور دیا۔

ہندوستھان سماچار/

/عطاءاللہ


 rajesh pande