نئی دہلی ، 27 ستمبر (ہ س)۔
سال 2016 میں چھ سال کے نوٹ بندی کے بعد اب سپریم کورٹ کا آئینی بنچ اس کی درستگی پر سماعت کرے گا۔ اس کے لیے جسٹس ایس عبدالنذیر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ کل یعنی 28 ستمبر کو آئینی بنچ اس معاملے کی تفصیلی سماعت کی تاریخ طے کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ 16 دسمبر 2016 کو آئینی بنچ کو بھیجا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو پانچ ججوں کی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ میں دائر تمام درخواستیں سپریم کورٹ میں منتقل کرتے ہوئے تمام درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔
سپریم کورٹ نے پانچ ججوں کی بنچ کے لیے آٹھ سوالات طے کیے تھے ، جن کے تحت آئینی بنچ فیصلہ کرے گا۔ عدالت نے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے جو سوالات رکھے ان میں سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا نوٹ بندی کا فیصلہ آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 26 کی خلاف ورزی ہے؟ دوسرا- 8 نومبر 2016 کو نوٹ بندی کے نوٹیفیکیشن اور اس کے بعد غیر آئینی ہیں۔ تیسرا- کیا نوٹ بندی آئین میں دی گئی مساوات اور کاروبار کرنے کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چوتھا- کیا نوٹ بندی کا فیصلہ بغیر تیاری کے نافذ کیا گیا، جب کہ نہ تو نئی کرنسی کا مناسب انتظام تھا اور نہ ہی پورے ملک میں نقدی پہنچانے کا۔ پانچواں سوال- کیا بینکوں اور اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کی حد مقرر کرنا حقوق کی خلاف ورزی ہے؟
چھٹا سوال جس پر آئینی بنچ کو غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ڈسٹرکٹ کوآپریٹو بینکوں میں پرانے نوٹ جمع کرنے اور نئے روپے نکالنے پر پابندی درست نہیں ہے۔ ساتواں سوال کہ کیا کوئی سیاسی جماعت مفاد عامہ کے لیے پٹیشن دائر کر سکتی ہے یا نہیں۔ آٹھواں اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ حکومت کی معاشی پالیسیوں میں مداخلت کر سکتی ہے؟
ہندوستھان سماچارمحمدخان