علی گڑھ ، 24 نومبر(ہ س)۔
دہلی کی تاریخی جامع مسجد نے لڑکیوں کے داخلے پر پابندی لگا نے کو معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے غلط قرار دیا ہے۔ وہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔انھوں نے کہا کہ ہمارے شیعہ فرقہ میں خواتین مساجد میں نماز ادا کرسکتی ہیں تو مدینہ منور ہ میں بھی خواتین کے نماز پڑھنے کے لئے معقول پردے کا انتظام ہوتا ہے تو خانہ کعبہ میں مرد اور عورتیں ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں توجب ایسے مقام پر کوئی روک نہیں ہے تو پھر یہاں پر بھی کسی طرح کی کوئی روک نہیں ہونی چاہیے،انھوں نے کہا کہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اگر پردہ کا انتظام نہیں ہوسکتا ہے تو بہتر ہے کہ نماز گھر میں پڑھو،لیکن اگر پردے کا انتظام ہے تو پھر آپ ان پر کسی طرح کی کوئی روک نہیں لگا سکتے ہیں غورطلب ہے کہ دہلی کی شاہی جامع مسجدانتظامیہ نے تینوں داخلی دروازوں پر ایک نوٹس بورڈ لگا دیا ہے جس پر لکھا ہے، 'جامع مسجد میں اکیلے لڑکیوں کاداخلہ ممنوع ہے۔' اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لڑکی یا لڑکیوں کے ساتھ کوئی مرد سرپرست نہ ہو تو انہیں مسجد میں داخلہ نہیں ملے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قدم مسجد کے احاطے میں فحاشی کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے سابقہ دنوں میں جس طرح سوشل میڈیا پر مسجد میں بنائی ہوئی ویڈیو وائرل ہوئی تھیں۔ اسکے بعد یہ فیصلہ لیا گیا ہوگا لیکن اس فیصلے آنے کے بعد فوراً اسکی مخالفت شروع ہوگئی ہے،دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے تو امام کو نوٹس جاری کرنے کی بات کہی۔ وہیں مولانا کلب جواد نے دیگر مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں ملک کے مختلف خطوں سے جس طرح کی خبریں موصول ہورہی ہیں اسکو دیکھ کر لگتا ہے کہ مرکزی حکومت ہو یا پھر صوبہ اترپردیش کی یوگی حکومت بہتر کام کررہی ہیں،مودی حکومت کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار فراہم کئے جارہے ہیں،انھوں نے کہا کہ آج تک حکومتوں نے اتنے بڑے پیمانے پر روزگار پر کام نہیں کیا ہے۔ مودی حکومت نے ایک ساتھ بڑی تعداد میں نوجوانوں کو روزگار دیا اور کروڑوں لوگوں میں راشن تقسیم کیا یہ اس کا بہترین کام ہے اسکی ستائش کی جانی چاہیے۔
ہندوستھان سماچار/
/عطاءاللہ