رئیس القلم علامہ ارشد القادری بحیثیت معمار قوم وملت
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی طالب دعا۔غلام رسول اسماع
رئیس القلم علامہ ارشد القادری بحیثیت معمار قوم وملت


مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ

مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی

طالب دعا۔غلام رسول اسماعیلی

ریسرچ اسکالر مرکزی ادارۂ شرعیہ پٹنہ بہار

اسلام کا وہ بطل جلیل اور استقامت کا جبل عظیم کہ جس کے جہاد بالقلم نے دین مصطفیٰ کو بھاری تباہی سے بچا لیا، جس کی نگاہ کیمیا اثر نے لاکھوں گمگشتگان راہ کو جادہ حق سے ہمکنار کر دیا جس کے در کی جبیں سائی وقت کے بڑے بڑے مسند نشینوں نے کی،جسکی دورس نگاہیں قوم وملت کی زبوحالی دور کرنے اور مستقبل کوروشن و تابناک بنانے پر لگی ہوئی تھی جس کے ناخن ادراک میں لا ینحل مسائل کا حل تھا، جو بیک وقت علم ظاہر و باطن کا ایسا حسین سنگم تھا جہاں ہر تشنہ لب کو سیرابی اور آسودگی کی دولت گراں مایہ ملتی تھی، جس کی خدمات کو حضور حافظ ملت نے سراہا تھا،جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا نائب، تصدیق حق میں صدیق اکبر کا پَرتَو، باطل کو چھانٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر، رحم و کرم میں ذوالنورین کی تصویر، باطل شکنی میں حیدری شمشیر، امام اعظم کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف، اور مولانا روم کا سوز و گداز تھا اس عظیم معمار قوم وملت کو دنیا رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ والرضوان کے نام سے یاد کرتی ہے۔اور انکی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔

اسم گرامی اور لقب:

آپ کا اصل نام غلام رشید ہے لیکن قلمی نام ارشد القادری سے مشہور ہیں۔ قائد اہل سنت اور رئیس القلم آپ کے القابات ہیں

ولادت باسعادت:

آپ کی ولادت باسعادت 5 مارچ 1925ء اتر پردیش کے ضلع بلیا کے سیدپورہ گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام عبد اللطیف رشیدی تھا۔

تعلیم وترتیب وتدریسی خدمات:

علامہ نے ابتدائی تعلیم گھر کے علمی ماحول میں حاصل کی، پھر تقریباً آٹھ سال حافظ ملت حضرت علامہ عبد العزیز محدث مبارکپوری بانی جامعہ اشرفیہ کی آغوش تربیت میں رہ کر اکتساب علم کیا۔1944ء میں دار العلوم اشرفیہ کے سالانہ جلسہ ٔ دستار بندی میں آپ کو سند فضیلت سے نوازا گیا۔ اس کے بعد آپ تدریس کے لیے ناگ پور پھر وہاں سے 1952ء میں جمشید پور تشریف لے آئے۔ نصف صدی سے زائد پر محیط تدریسی دور میں تقریباً ڈیڑھ ہزار طلبہ نے آپ سے اکتساب علم کیا۔

تصنیف وتالیف:

علامہ شش جہات شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز اور زبردست قلمکاربھی تھے یہ پہلو آپ کی شخصیت پرکچھ اس طرح حاوی ہوگیاہے کہ جب بھی آپ کا جلوۂ زیبانگاہوں میں آتا ہےایک پرکشش اسلوب بیان، اچھوتے لب و لہجہ اور صاحب طرز ادیب کا خاکہ ذہن ودماغ میں ابھر آتا ہے کیونکہ آپ نے مذہبی ادب میں ایک نئی پہچان بنا رکھی ہے جن کی نظیر خال خال ہی مل سکتی ہے۔ لالہ زار کتاب اس دعوے کی بین دلیل ہے آپ نے تحریر کو جاذب نظر بنانے کے لیے بہت زیادہ سخت الفاظ مشکل تراکیب اور ثقیل تعبیرات سے احتراز کیا ہے اور سادہ مگر پرکشش لب ولہجہ استعمال کیاہے آپ کے جملوں کا بانکپن دیدنی ہےیہ آپ کے قرطاس وقلم کی شان امتیازی ہے کہ نہایت سہل الفاظ اور عام فہم تعبیرات کے استعمال سے ہی جملوں میں عجیب سی خوبصورتی اور جاذبیت پیدا ہوجاتی ہے۔

آپ متعدد فنون مثلا عقائد،فقہ،اصول فقہ،تفسیر،ادب تنقیدمیں چار درجن سے زائد تصانیف فرمائی ہیں متعدد کتب پر مقدمہ اور تقریظ جام نور، جام کوثر، رفاقت، شان ملت کے علاوہ ملک کے مختلف جرائد و رسا ئل میں آپ کے شہہ پارے آپ کی ادبی حیثیت کے ثبوت ہیں۔

آپ کی تصنیف کردہ کتابیں:

1۔جماعت اسلامی

2۔تبلیغی جماعت

3۔زلزلہ

4۔زیروزبر

5۔شریعت

6۔جلوۂ حق

7۔ علم غیب

8۔نقش خاتم

9۔تعزیرات قلم

10۔دور حاضر میں منکرین رسالت

11۔دعوت انصاف

12۔رسالت محمدی کا عقلی ثبوت

13۔عقیدۂ توحید پر عقلی دلائل

14۔سرکار کا جسم بے سایہ

15۔نقش کربلا

16۔محمدرسول اللہ قرآن میں

17۔ایک ولولہ انگیز تقریر

18۔تجلیات رضا

19۔شخصیات

20۔حیات خواجہ قطب الدین بختیار کاکی

21۔حدیث فقہ اور جہاد کی شرعی حیثیت

22۔انوار احمدی

23۔تفسیر ام القرآن

24۔کمالات مصطفیٰ

25۔عینی مشاہدات

26۔خطبات استقبالیہ

27۔دل کی مراد

28۔مصباح القرآن

29۔لسان الفردوس

30۔لالہ زار

31۔بہ زبان حکایت

32۔آئیے حج کریں

33۔میری دینی اور جماعتی خدمات

34۔ارشد کی کہانی ارشد کی زبانی

35۔افکارو خیالات

36۔شعور آگہی

37۔سحرالبیانی

38۔زلف وزنجیر

39۔المکاتیب

40۔الفتاوی(علامہ کے فتاوی کا مجموعہ جسکو استاذ گرامی علامہ مفتی حسن رضا نوری نے ترتیب دی ہے)

یہ آپ کی تصانیف ہیں جن کے اثرات آج بھی قائم ہیں۔

ارادت وخلافت:

علامہ عہد طالب علمی میں ہی اپنے بہنوئی صدر الشریعہ علامہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے۔اجازت و خلافت خلیفہ اعلیٰ حضرت قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور سرکاری پٹنہ حضرت فدا حسین سے ملی۔

مولانا شہاب الدین رضوی بہرائچی کے بقول علامہ کو حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے ارادت وخلافت کا شرف حاصل تھا۔

شادی اور اولادیں:

علامہ کی دو شادیاں ہوئی تھیں پہلی شادی آپ کے ہی خالہ زاد بھائی عبد الوہاب صاحب کی بیٹی کنیز فاطمہ سے ہوئی تھی لیکن کچھ ہی دنوں بعد ازدواجی زندگی میں کھٹاس پیدا ہوگئی اور سال بھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ یہ تنازعہ طلاق پر جاکر ختم ہوا۔اسکے بعد آپ نے 1950ء میں دوسرا نکاح قاری حکیم شفیق احمد صاحب کی دوسری بیٹی عائشہ خاتون سے کیا۔ بی بی عائشہ خاتون کی پرورش اسلامی سانچے میں ہوئی تھی علامہ کی زوجیت میں آنے کے بعد ان کے دینی مزاج نے مزید ترقی پائی انہوں نے علامہ کو خانگی مسائل سے کبھی دوچار نہیں ہونے دیا۔اور علامہ جم کر دین کی خدمت میں مصروف رہے۔

پہلی بیوی سے علامہ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی جب کہ دوسری زوجہ سے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں:غلام ربانی،فیض ربانی،غلام جیلانی،غلام زرقانی،غلام شعرانی،سیما انوری اور زیبا قادری۔

حلیہ مبارک:

قمرالحسن قمر بستوی صاحب نے اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر علامہ کا سراپا اس طرح بیان کیا ہے:

٫٫قد:میانہ سے کچھ کم۔ پیشانی: کشادہ-ہونٹ: باریک۔دانت: مناسب اور پان سے متاثر۔ آنکھ: عقابی۔ سر:گول۔ انگلیاں: مخروطی قدرےدراز۔ سینہ: چوڑا۔ رخسار:ارغوانی۔ ناک:ستواں۔ کلائی: گداز اور پھیلی ہوئی۔پیر: مناسب مگر سریع الحرکت۔ ایڑیاں: مددر۔پنجے:سمٹےہوئے۔داڑھی:شرعی اور سفید مونچھیں: باریک۔ بال: زلف دار اور سفید جبکہ سر کے اوپر سے خالی۔ آواز: گرجدار اور موثر۔کان:جسکی لو قدرے دراز۔گھٹنے:مضبوط۔ٹخنے: سجدوں کےغماز،،(سہ ماہی فیضان جمشید پور،اپریل تاجون 05ء ص:35)

لباس مبارک:

قمر بستوی صاحب نے علامہ کے لباس کا خاکہ اس طرح قلمبند کیا ہے:

٫٫کرتا:لمبا کلی دار،پاجامہ:علی گڑھی،ٹوپی:کپڑے کی سفید دوپلی کبھی کبھار رامپوری جس کی دیواریں چوڑی،گلے میں لمبا رومال جو عموما خاکی یا مائل بہ نارنگی ہوتا،بنیان:کلکتہ والی کپڑے کی سوتی،صدری:بغیر گلے والی سینہ پر کھلی ہوئی،عمامہ:کبھی کبھار سرمئی،خاکی یا سفید،جبہ:موٹا سوتی کے علاوہ عراقی ماڈل ،جوتا:عموما ناگرہ براؤنی ،لنگی:سوتی مدراسی شنکھ برانڈ،،(سہ ماہی فیضان جمشید پور،اپریل تاجون 05ء ص:35)

زہدوتقوی:

قرآنی اصطلاح میں جس سعادت و بزرگی کا نام تقوی ہے اس کی اساس ایمان ہے اور ایمان بغیرعشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نہیں ہوتا علامہ بھی تکمیل ایمان کی شرط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت و محبت اور شیفتگی کو قرار دیتے ہیں فرماتے ہیں:

٫٫ میرا عقیدہ ہے کہ جب عشق رسول پاک جنون کی حد تک نہ پہنچے جب تک اس میں والہانہ جوش اوررندی وقلندری کا رنگ پیدانہ ہو ایمان مکمل نہیں ہوتا(جام نورکا رئیس القلم نمبر،ص:59)

چنانچہ علامہ کے شب و روز کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کے تمام تر اعمال و اشغال اور تقوی وپرہیزگاری کی عمارت صرف اور صرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر قائم تھی وہ ایک جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ کے سخت پابند پیرطریقت بھی تھے لہذاصوم وصلوۃ اور اورادووظائف کی پابندی کے علاوہ تاعمر نفلی عبادات کے بھی پابند رہے اور کئی بار حج بیت اللہ اور زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل کیا۔اتباع ومحبت رسول نے اپ کے اندر صبر،عفت، شجاعت اور عدل و ایثار کے وہ جواہر پیدا کر دیے تھے جس سے اپکی شخصیت و صلاحیت کواور چار چاند لگ گیا۔

خانوادہ اعلٰی حضرت سے آپکی بے پناہ محبت:-

حضرت مفتی محمد عابد حسین مصباحی صاحب قبلہ ( شیخ الحدیث جامعہ فیض العلوم جمشید پور وقاضی جھارکھنڈ) حیات علامہ سبطین رضا میں رقمطراز ہیں ” قائد اہلسنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ والرضوان ہمارے دیگر علماء و مشائخ اہل سنت کی طرح بزرگوں سے کافی انسیت رکھتے تھے،وہ ان کا بے حد ادب و احترام بجا لاتے تھے، اس معاملے میں آپ کی شخصیت لائق اتباع ہے ، کبھی راقم نے خود اپنی نظروں سے دیکھا اور بہت سے واقعات سننے کو ملے۔ انجمن فیضان ملت کی طرف سے دوسری بار جب امین شریعت مدعو ہوے، تو آپ کی تشریف آوری سے چند دن قبل علامہ موصوف نے ایک مجلس میں راقم الحروف سے دریافت فرمایا کہ حضرت علامہ سبطین رضا صاحب کو کس کمرے میں ٹھہراوگے،راقم نے جواب دیا: دوسروی منزل کے اس کمرے میں جہاں شمس العلماء حضرت مفتی نظام الدین الہ آبادی علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث مدرسہ فیض العلوم رہتے تھے،حضرت علامہ نے فرمایا، "نہیں، بلکہ میرے اس کمرے میں ٹھہراؤ ،کیونکہ وہ سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور خانوادہ اعلٰی حضرت پر سرکار مدینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی نگاہ عنایت وکرم ہے ، اس پر ان کا خاص فیضان ہے ،اس لیے حضرت کی خاطر،تواضع اور ادب واحترام میں کچھ کمی نہ ہو” چنانچہ حضرت علامہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے انکی حویلی سے متصل ان کے حجرہ میں ہی راقم الحروف نے حضرت کے قیام کا انتظام فرمایا۔”

(حیات علامہ سبطین رضا)

تحریکیں، ادارے اور مساجدکا قیام:

علامہ ارشد ا لقادری اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کے خوابیدہ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور دینی و ملی شیرازہ بندی کے لئے تنظیم و تحریک کی اہمیت وافادیت نا گزیر ہے کیوں کہ جو قوم جتنی منظم اور مربوط ہوگی تعمیرو ترقی کے میدان میں وہ اسی قدر ترقیاں کرکے مضبوط ومستحکم ہوگی جیسا کہ آج سیکڑوں باطل نظریات کی حامل تنظیمیں اور تحریکیں ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نظام عمل میں کسی قسم کی کوتاہی کو دخیل نہیں ہونے دیتی جب کہ ’’جماعت اہل سنت کے درمیان تنظیمی لا مرکزیت اور دستوری قیادت کے فقدان کا ماتم ایک عرصۂ دراز سے کیا جارہا ہے یہاں تک کہ اب ہماری سنجیدہ محفلوں کا موضوع سخن بن گیا ہے جہاں تک جماعتی شیرازہ بندی کے لئے کوشش کا تعلق ہے ہمارے اکابر نے متعدد بار اس کے لئے کوشش فرمائی ملک کے طول و عرض سے جماعت کے ذمہ دار رہنما بھی جمع ہوئے ہیں پرجوش امنگوں کے سائے میں کل ہند سطح پر جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے بھی تیار کئے گئے لیکن ساری جد و جہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ یکے بعد دیگرے کل ہند سطح پر کئی تنظیمیں ہمارے یہاں معرض و جود میں آئیں اور کوئی بھی تنظیم بھی اپنے لیٹر پیڈ ، اپنے سائن بورڈ اور اپنے مخصوص حلقے سے آگے نہ بڑھ سکی ( ماہنامہ پاسبان الہ آبادستمبر 1979ء)

لیکن علامہ کی زندگی کا سب سے روشن پہلو ملک و بیرون ملک میں ان کے ذریعے قائم کیے گئے درجنوں ادارے ہیں جن کے توسط سے وہ فکر اسلامی کی ترویج و بقا اور اقامت و احیائے دین کا فریضہ انجام دے کرتاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے سرخرو ہوگئے اورآج ممنون قوم ان کے اسی احسان گرانبار کو اپنی عقیدتوں کا خراج پیش کر رہی ہے اور آئندہ نسلیں بھی پیش کرتی رہیں گی۔ آپ نے افراد ملت اسلامیہ کے لیے اسلامی عائلی قوانین کے دائرے میں باعزت اور پرسکون زندگی گزارنے کے مقصد سے کئی تحریکوں کی داغ بیل ڈالی اور متعدد مساجد کا بھی قیام فرمایاجبھی تو آپ قائد اہلسنت بانی مدارس ومساجد کثیرہ سے یاد کئے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل میں ان مدارس، مساجد اور تحریکات کی فہرست پیش کی جارہی ہیں جس کی بنیاد علامہ نے ڈالی اور عمر بھر ان کی سرپرستی بھی فرماتے رہے۔

بیرون ممالک قائم کردہ تعلیمی ادارے:

(1) اسلامک مشنری کالج، بریڈفورڈ، انگلینڈ 1974ء

(2)جامعہ مدینۃ الاسلام،ڈین ہاگ،ہالینڈ1988ء

(3) دارالعلوم علیمیہ،سورینام، امریکہ1988ء

بیرون ممالک قائم کردہ تبلیغی ادارے:

(4) ورلڈ اسلامک مشن،اسکی بنیاد مکہ معظمہ کے دارارقم میں رکھی گئی اور عالمی دفتر لندن میں قائم کیا گیا 1972ء

(5)دعوت اسلامی،دارالعلوم امجدیہ کراچی پاکستان میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور مولانا الیاس قادری کو اس کا امیر بنایا گیا 1988ء

اندرون ملک قائم کردہ دینی، ثقافتی اور تنظیمی ادارے:

(6) مرکزی ادارۂ شرعیہ پٹنہ بہار 1968ء

(7)کل ہند مسلم متحدہ محاذ رائے پور مدھیہ پردیش(اب چھتیس گڑھ)

(8)کل ہندمسلم پرسنل لاء کانفرنس،سیوان، بہار 1985ء

اندرون ملک قائم کردہ تعلیمی ادارے:

(9) مدرسہ فیض العلوم،دھتکیڈیہہ،جمشیدپور،جھاڑکھنڈ1952ء

(10) دارالعلوم گلشن بغداد، منڈی کلاں، ہزاری باغ جھاڑ کھنڈ 1960ء

(11)فیض العلوم مڈل اسکول جوہر نگر جمشید پور، جھاڑ کھنڈ 1970ء

(12)اسلامی مرکز، ہند پڑھی، رانچی،جھارکھنڈ 1978ء

(13)فیض العلوم ہائی اسکول دھتکیڈیہہ، جمشید پور، جھاڑ کھنڈ 1980ء

(14)دارالعلوم ضیاءالاسلام،ہوڑہ، مغربی بنگال

(15) مدرسہ مدینۃ العلوم، میسور روڈ ،بنگلور، کرناٹک

(16) مدرسہ مفتاح العلوم نالہ روڈ،راولکلا،اڑیسہ

(17) مدرسہ مدینۃ الرسول، جلوہ آباد،کوڈرما، جھارکھنڈ

(18) مدرسہ مظہر حسنات، رامگڑھ،جھاڑ کھنڈ

(19)مدرسہ تنویرالاسلام ٹیلکو، جمشید پور، جھاڑ کھنڈ1981ء

(20) فلاحی مرکز ،آزاد نگر، جمشید پور جھاڑ کھنڈ

(21) مدرسہ عزیزالاسلام جکسلائی، جمشید پور جھاڑ کھنڈ

(22)جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء، ذاکر نگر،نئی دہلی1982ء

(23) مدرسہ عزیزیہ، نیورانی کدر، جمشید پور، جھاڑ کھنڈ

(24) دارالعلوم مخدومیہ،گوہاٹی،آسام1987ء

(25)جامعہ غوثیہ رضویہ، پیر والی، سہارنپور، یوپی 1987ء

(26)دارالعلوم رشیدیہ رضویہ،سید پورہ بلیا،یوپی

(27) مدرسہ تعمیر ملت،تلیا،کرماٹانڈ، جھارکھنڈ

(28) مدرسہ امدادالحنفیہ،دمکا،

جھاڑ کھنڈ

(29) مدرسہ سراج الاسلام، مدھو پور، دیوگھر، جھارکھنڈ

(30) دارالعلوم فیض الباری، نوادہ، بہار

(31)دارالسلام رضویہ،کلیر شریف یوپی

(32) دارالعلوم اہلسنت، جے پور، راجستھان

(33) مدرسہ مدینۃ العلوم، بنگلور، کرناٹک

(34)مدرسہ اشاعت الایمان،چتور،آندھراپردیش1988ء

(35) دارالعلوم حافظ ملت،قصبہ شاہی گیا،بہار1988ء

(36) دارالعلوم غوثیہ، کھڑگپور، مغربی بنگال

اندرون ملک تعمیر کردہ مساجد:

(37) فیض العلوم مکہ مسجد،دھتکیڈیہہ، جمشید پور، جھاڑ کھنڈ 1997ء

(38)نورانی مسجد، ذاکر نگر، جمشید پور، جھاڑ کھنڈ

(39)قادری مسجد،ٹیلکو، جمشید پور، جھاڑ کھنڈ

(40)مسجد مفتاح العلوم،راولکلا،اڑیسہ

(41)مسجد غوثیہ ہندپڑھی، رانچی جھارکھنڈ

(42)مسجد اہلسنت جلوہ آباد، کوڈرما، جھارکھنڈ

(43) مدینہ مسجد، آزاد نگر، جمشید پور، جھاڑ کھنڈ

(44)مدینہ مسجد، موسی بستی، جمشید پور، جھاڑ کھنڈ

قیام کانفرنس:

(45) کشمیر کانفرنس جمشید پور جھاڑ کھنڈ 1965ء

(46)بہار صوبائی سنی کانفرنس سیوان، بہار1968ء

(47) کل ہند سنی اوقاف کانفرنس دہلی

(48)کل ہندمسلم پرسنل لاء کانفرنس ،سیوان،بہار1985ء

(49)کل ہند سنی کانفرنس رام لیلا میدان ،نئی دہلی 1995ء

کانفرنسوں میں بحیثیت مندوب شرکت (اندرون ملک):

(50)کل ہند سنی جمیعۃ العلماء کانفرنس کانپور،یوپی

(51)کل ہند تعلیمی کانفرنس، مبارک پور اعظم گڑھ یوپی

(52)بین الاقوامی مفتی اعظم کانفرنس،ممبئی، مہاراشٹر

(53)کل ہندمسلم پرسنل لاء کانفرنس برائے گرفتاری لکھنؤ یوپی۔

کانفرنسوں میں بحیثیت مندوب شرکت (بیرون ملک):

(54)مئوتمر جمعیات وجماعات،تہران،ایران1982ء

(55) حجاز کانفرنس، لندن،انگلینڈ1985ء

(56)مئوتمرالدعوۃ الاسلامیۃ العالمیہ،طرابلس،لیبیا1986ء

(57)احمد رضا کانفرنس،کراچی پاکستان

(58) مئوتمر مبلغ اعظم مولانا عبدالحلیم صدیقی،اسٹرڈم،ہالینڈ

(59) مئوتمرعالم اسلام،بغداد، عراق

(60)عالمی میلاد کانفرنس،پاکستان وغیرہ کا قیام آپ کے زرین کارنامے ہیں۔

(علامہ ارشد القادری حیات وخدمات،ص:40تا44)

مناظرہ:

علامہ نے اپنے دور میں علمائے سابقین کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے احقاق حق وابطال باطل کا فریضہ انجام دیا اور تحریروتقریر کے علاوہ ایک درجن سے زائد مناظروں کے ذریعہ بے شمار مسلمانوں کو گمراہی کے دلدل سے نکال کر ایمان واسلام کی دہلیز پر لا کھڑا کیا آپ کے تمام مناظروں میں فریق کی حیثیت سے دیوبندی علماء شریک رہے ہمیشہ مخالف مناظر کو دندان شکن جواب دیا۔اپ کو عقلی دلائل و براہین و قرآن واحادیث اور فقہی جزئیات کے ذریعہ اپنی بات منوانے پر بڑی قدرت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے دور میں اہل سنت والجماعت میں صف اول کے مناظر شمار کئے جاتے تھے۔کچھ مناظروں کا اجمالی خاکہ ملاحظہ فرمائیں:

پہلا مناظرہ بمقام کٹک اڑیسہ۔

دوسرا مناظرہ بمقام بتھوا بازار،چھپرہ۔

تیسرا مناظرہ بمقام نیر،امراوتی،مہاراشٹر۔

چوتھا مناظرہ بمقام بولیامندر سور ،راجستھان۔

پانچواں مناظرہ بمقام جامع مسجد جھریا،بہار(اب جھاڑ کھنڈ)

چھٹا مناظرہ بمقام کٹک،اڑیسہ۔

علامہ کے ذریعہ احقاق حق وابطال باطل کے لئے کئے گئے چند مناظروں کایہ اجمالی خاکہ تھا جبکہ انہوں نے ان کے علاوہ کئی مناظروں میں حصہ لیا جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں:

٫٫ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ میں نے حضرت مجاہد ملت کی خدمت میں گزاراہے سفر و حضر میں ان کی ہمراہی کا بارہاشرف حاصل ہوا ہےخصوصیت کے ساتھ 12/ مناظروں میں ان کے ساتھ میں نے سفر کی سعادت حاصل کی ہے جس میں 8/ مقامات پر میں نے حضور مجاہد ملت کی صدارت میں کامیاب مناظرے کیے،،(شخصیات،مرتب ڈاکٹر غلام زرقانی،ص:183)

واضح رہے کہ مناظرہ ایک عالم کی عملی زندگی کا سب سے دشوار مرحلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے مناظر کا وسیع المطالعہ اور قوی الحافظہ ہونے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر قادر ہونا ضروری ہے بقول مولانا یاسین اختر مصباحی:

٫٫ منقولات ومعقولات میں تبحر، اسلامی وعربی علوم پر عبور، تاریخ واحوال زمانہ سے آگہی، حریف ومدمقابل کی شاطرانہ چالوں سے باخبری اور اس کی کمزوری پرنظر، تحقیقی والزامی جواب ودفاع کا بروقت فیصلہ، جس کی ضرورت ہواس میں استحضارو تیقظ۔یہ وہ ساری خوبیاں ہیں جن سے ایک اچھے مناظر کا آراستہ ہونا ضروری ہوتا ہے،،(شارح بخاری ص:13)

اور واقعہ ہے کہ مذکورہ اوصاف سے علامہ پوری طرح آراستہ تھے انکی گرجدار آواز اور دلائل و براہین سے پر فی البدیہہ جوابات حریف پر سکتہ طاری کر دیتے تھے اس سلسلے میں آپ کا بیان ہیکہ:

٫٫ میں نے حضور حافظ ملت کی تصنیف[العذاب الشدید]سے فن مناظرہ سیکھا،،(جہان رئیس القلم ص:72 )

اللہ رب العزت نے گوناگوں خصوصیات و کمالات سے علامہ کو خوب خوب نوازا تھا

انہیں ترجیحات کی بناء پر آپ یقینا معمار قوم وملت تھے

تاریخِ وصال:

علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ مقصد حیات کے تکمیل کے بعد بمنشاء الہی 16/ صفر المظفر1423ھ 29/ اپریل 2002ء کو داعی اجل کو لبیک کہا (اناللہ واناالیہ راجعون)ہر طرف موت العالم موت العالم کا منظر لگ رہا تھا۔اپ کا آخری آرام گاہ جامعہ فیض العلوم جمشید پور جھاڑ کھنڈ کے احاطے میں منتخب ہوا لاتحصی کی تعداد میں علماء ومشائخ اور عوام جنازہ میں شرکت کی اور علامہ کو سپرد باللہ ورسولہ کردیئے۔اللہ تعالیٰ ہمیں علامہ کے فیوض وبرکات سے مالا مال عطا فرمائے آمین

ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے

حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

ہندوستھان سماچار/ افضل/عطاءاللہ


 rajesh pande