
غزہ،12نومبر(ہ س)۔اکتیس سالہ فلسطینی ماں حنان الجوجو کو اپنے تین بچوں کو تاریکی میں ٹارچ کی مدد سے کھانا کھلانا پڑتا ہے کیونکہ گذشتہ ماہ اسرائیل اور حماس کی جنگ بندی کے بعد بھی غزہ میں بجلی موجود نہیں ہے۔جب ان کے پاس ٹارچ کو چارج کرنے کی استطاعت نہ ہو تو وہ بھوکے ہی رہ جاتے ہیں۔جب سورج غروب اور مغرب کی نماز ادا ہو جائے تو ہم تاریکی میں رہتے ہیں۔ اگر ٹارچ کی روشنی دستیاب ہو تو ہم اسے روشن کر لیتے ہیں ورنہ رات کے کھانے یا روشنی کے بغیر ہی سو جاتے ہیں، الجوجو نے کہا۔دو سال سے زیادہ عرصہ پہلے جنگ شروع ہونے کے بعد سے ان کا خاندان بجلی سے محروم ہے اور جب وہ پہلی بار فلسطینی علاقے کے جنوب میں واقع رفح شہر میں بے گھر ہوئے، اس کے بعد سے وہ موم بتیوں پر انحصار کر رہے ہیں۔آخرِ کار انہوں نے اپنے خیمے میں آگ لگنے کے خوف سے موم بتی جلانا بھی ترک کر دیا۔ ہم نے ایک سادہ ایل ای ڈی لائٹ آزمائی لیکن وہ ٹوٹ گئی۔ ہمارے پاس اسے ٹھیک کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہم نے ایک بیٹری لینے کی کوشش کی لیکن یہ مہنگی ہے اور دستیاب نہیں، الجوجو نے کہا۔جنگ سے پہلے غزہ بنیادی طور پر اسرائیل سے درآمد شدہ بجلی پر انحصار کرتا تھا اگرچہ سپلائی تعطل کا شکار ہو جاتی تھی۔ غزہ کے حکام کے مطابق اسے اسرائیل سے 120 میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی تھی جبکہ انکلیو کا واحد پاور پلانٹ مزید 60 میگاواٹ فراہم کرتا تھا۔سات اکتوبر 2023 کے حملے کے فوراً بعد اسرائیل نے غزہ کو مکمل محاصرے میں لے لیا تھا۔
اس کے پاور سٹیشن کا ایندھن جب چند ہی دنوں میں ختم ہو گیا تو غزہ میں بجلی غائب ہو گئی۔اب وسطی غزہ کے محلے نوصیرات میں نقلِ مکانی کیمپ میں زیادہ تر خاندانی سرگرمیاں سورج غروب ہونے پر ختم ہو جاتی ہیں۔ الجوجو کے بچے سکول سے ملنے والے ہوم ورک کے لیے ٹارچ بھی استعمال کرتے ہیں جب اسے چارج کرنا ممکن ہو۔حنان کے شوہر 35 سالہ احمد نے مزید کہا، ہمارے پاس بمشکل اتنی رقم ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی ہی گذار سکیں۔جنگ نے غزہ کے بجلی گھر اور تاروں کو جس طرح تباہ کر دیا ہے، اس کے پیشِ نظر بعض رہائشی چارجنگ پوائنٹس چلاتے ہیں جو شمسی توانائی یا نجی جنریٹرز کے ذریعے بجلی حاصل کرتے ہیں۔محمد الح±ر کے خاندان نے شمسی توانائی سے چارجنگ کرنے کا ایسا ہی ایک کاروبار چلا رکھا ہے۔ انہوں نے یہ اپنے گھر پر شروع کیا ہے جو اسرائیلی حملے کا نشانہ بنا تھا۔ 32 سالہ نوجوان نے بتایا، چارجنگ پوائنٹ پر بھی بمباری ہوئی اور میرا بھائی اس کے اندر ہی شہید ہو گیا۔اس سال مارچ میں اسرائیلی وزیر ایلی کوہن نے کہا کہ انہوں نے الیکٹرک کارپوریشن کو ہدایت کی کہ وہ حماس کے خلاف تعزیری اقدام کے طور پر غزہ کو بجلی فروخت نہ کرے۔لیکن غزہ جس کا بیشتر حصہ اسرائیلی بمباری سے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، وہاں جنگ بندی کے بعد بھی بجلی کی بحالی کے لیے وسیع پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو کی ضرورت ہو گی۔غزہ کی بجلی کمپنی کے میڈیا ڈائریکٹر نے رائٹرز کو بتایا، انکلیو کا بجلی کی تقسیم کا 80 فیصد سے زیادہ نیٹ ورک جنگ کے باعث پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے جس میں بنیادی ڈھانچے اور مشینری کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ 728 ملین ڈالر کا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan