اردو اکادمی، دہلی کا چار روزہ ”جشنِ اردو“ کا دوسرا دن
نئی دہلی، یکم نومبر(ہ س)۔”بیت بازی جیسے ادبی مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل تیاری اور مشاقی کے ساتھ ان مقابلوں میں شریک ہوں۔ غیر معیاری اور بے وزن اشعار سے پرہیز کریں، معروف شعرائ کے کلام کا انتخاب کریں لیکن اشعا
اردو اکادمی، دہلی کا چار روزہ ”جشنِ اردو“ کا دوسرا دن


نئی دہلی، یکم نومبر(ہ س)۔”بیت بازی جیسے ادبی مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل تیاری اور مشاقی کے ساتھ ان مقابلوں میں شریک ہوں۔ غیر معیاری اور بے وزن اشعار سے پرہیز کریں، معروف شعرائ کے کلام کا انتخاب کریں لیکن اشعار کی کیفیت، تلفظ اور ادائیگی پر خاص توجہ دیں۔ اشعار پڑھتے وقت تلفظ درست، لہجہ دلکش اور انداز مو¿ثر ہو تاکہ سامعین دلچسپی کے ساتھ سنیں۔“ان خیالات کا اظہار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں درس و تدریس سے وابستہ ڈاکٹر واحد نظیر نے ”جشنِ اردو“ کے دوسرے دن منعقدہ بیت بازی کے مقابلے میں طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔بیت بازی کے اس مقابلے میں دہلی کی مختلف یونیورسٹیوں سے کل ا?ٹھ ٹیموں نے حصہ لیا۔ ججز کے طور پر شریک ڈاکٹر شمیم احمد، ڈاکٹر شفیع ایوب اور ڈاکٹر واحد نظیر نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ٹیم کو اول، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی دو ٹیموں کو بالترتیب دوم اور سوم، جبکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک دوسری ٹیم کو اعزازی انعام کا حقدار قرار دیا۔ نظامت کی ذمہ داری حسبِ روایت ریشما فاروقی، اطہر سعید اور سلمان سعید نے انجام دی، جنہوں نے اپنی خوش گفتاری اور مہارت سے پروگرام کو کامیاب بنایا۔بیت بازی کے بعد دوسرے دن کا دوسرا پروگرام ”محفلِ غزل“ تھا جس میں جے پور کے معروف فنکار عامر حسین نے چند مشہور غزلوں کو روایتی ساز و سرود کے ساتھ سامعین کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے محفل کا ا?غاز یہ غزل گا کر کیا۔”ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے۔ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے“۔اس کے بعد انھوں نے کئی مشہور غزلیں پیش کیں جنہیں سامعین نے بے حد پسند کیا۔محفلِ غزل کے بعد تیسرا پروگرام ”محفلِ قوالی“ کا تھا، جس میں دہلی گھرانے کے معروف قوال عبدالحمید صابری نے امیر خسرو کے صوفیانہ کلام کو قوالی کے انداز میں پیش کرکے سامعین کو محظوظ کیا۔ انھوں نے دیگر صوفیانہ کلام بھی سنائے جن پر سامعین جھوم اٹھے۔اس دوران ناظمینِ محفل ریشما فاروقی، اطہر سعید اور سلمان سعید نے سامعین کے ساتھ غزل، قوالی اور ہندی فلمی نغموں کی روایت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اس کے بعد ”ساز و سرور“ کے تحت چوتھی محفل سجائی گئی جس میں دہلی کی معروف گلوکارہ نپور سدھو نارائن نے اپنی فنکاری کا ا?غاز اس مشہور غزل سے کیا:”ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے۔تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے“۔ان کی مترنم اور سحرانگیز ا?واز نے سامعین کو مسحور کر دیا۔ انھوں نے مومن اور فیض احمد فیض کی مشہور غزلیں بھی پیش کیں، جن پر سامعین نے دل کھول کر داد دی۔

”ساز و سرور“ کے بعد سندر نرسری کا ایمفی تھیٹر دہلی کی روایتی موسیقی سے گونج اٹھا۔ سامعین کی تعداد صبح کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکی تھی اور وہ ہر محفل سے بھرپور لطف اندوز ہو رہے تھے۔پانچویں محفل ”ایک شام دہلی اور اس کے شاعر“ کے عنوان سے منعقد ہوئی، جس میں دہلی کی معروف فنکارہ ودیا شاہ نے اردو کے کلاسیکی شعرائ کے منتخب کلام کو روایتی اور کلاسیکی سنگیت کے امتزاج کے ساتھ پیش کیا۔ اس محفل کی خاص بات یہ تھی کہ فنکارہ نے صرف گائیکی ہی نہیں بلکہ دبستانِ دہلی کے شعرائ کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو تہذیب کی پوری تاریخ کو اجاگر کیا۔اس کے بعد ”شامِ قوالی“ کا اہتمام کیا گیا، جس میں حیدرا?باد کے معروف قوال گروپ وارثی برادرز نے صوفیانہ اور عاشقانہ کلام پیش کرکے ماحول کو کیف و سرور سے بھر دیا۔شام سات بجے ساتویں پروگرام ”صوفی بینڈ“ کا ا?غاز ہوا، جس میں دہلی گھرانے سے تعلق رکھنے والی نوجوان فنکارہ وسعت اقبال خان نے اپنے منفرد انداز میں منتخب صوفی کلام پیش کیے۔ انھوں نے اپنے پروگرام کا ا?غاز مشہور پنجابی صوفی گیت ”جگنی ری“ سے کیا۔ ان کی مدھم اور پر اثر ا?واز نے سامعین کو وجد میں مبتلا کر دیا۔ بعد ازاں انھوں نے نعتِ پاک ”تاجدارِ حرم، ہو نگاہِ کرم“ کو نئے اور دلکش انداز میں پیش کیا جسے بے حد پسند کیا گیا۔صوفی بینڈ کے بعد رات ا?ٹھ بجے ”رنگِ صوفیانہ“ کے تحت دوسرے دن کی ا?خری محفل کا ا?غاز ہوا، جس میں بنگلور کی معروف نوجوان صوفی فنکارہ کھنک جوشی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے امیر خسرو کا کلام ”چھاپ تلک“ اور دیگر صوفی اشعار نہایت مہارت اور دلکشی سے پیش کیے۔ ان کے برمحل اشعار اور دل ا?ویز پیشکش نے سامعین کو محوِ سماعت کر دیا۔ یہ پروگرام رات دس بجے تک جاری رہا۔اس موقع پر مہمانِ خصوصی کے طور پر ڈاکٹر رشمی سنگھ، سکریٹری محکمہ فن، ثقافت و السنہ، حکومتِ دہلی، محمد ہارون اور عزیر قدوسی نے تمام فنکاروں کا مومنٹو اور پودوں سے استقبال کیا۔ڈاکٹر رشمی سنگھ نے اکادمی کے جملہ اراکین کو کامیاب پروگرام کے لیے مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ ”اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام جاری ’جشنِ اردو‘ نہ صرف زبان و ادب کے فروغ کی علامت ہے بلکہ یہ دہلی کی گنگا جمنی تہذیب اور ثقافتی ہم ا?ہنگی کی بہترین مثال ہے۔ دہلی حکومت کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ فن و ثقافت کو عوام کے قریب لایا جائے، تاکہ نئی نسل اپنی تہذیبی وراثت سے جڑ سکے۔ حکومتِ دہلی اردو زبان اور اس کے فروغ کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کر رہی ہے اور ایسے پروگرام اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہلی واقعی ایک زندہ، متحرک اور ثقافتی طور پر مضبوط شہر ہے۔“

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande